كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ الصِّرَاطُ جَسْرُ جَهَنَّمَ صحيح قَالَ عَطَاءٌ وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ جَالِسٌ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا يُغَيِّرُ عَلَيْهِ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَوْلِهِ هَذَا لَكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ حَفِظْتُ مِثْلُهُ مَعَهُ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: صراط ایک پل ہے جو دوزخ پر۔۔۔
عطاءنے بیان کیا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بھی اس وقت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے ان کی کسی بات پر اعتراض نہیں کیا لیکن جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث کے اس ٹکڑے تک پہنچے کہ تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اتنی ہی اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں تو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تمہاری یہ ساری خواہشات پوری کی جاتی ہیں اور اس سے دس گنا اور زیادہ نعمتیں دی جاتی ہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں میں نے یوں ہی سنا ہے۔ یہ سب چیزیں اور اتنی ہی اور۔
تشریح :
اس حدیث میں پروردگار کی دو صفات کا اثبات ہے۔ ایک آنے کا، دوسری صورت کا۔ متکلمین ایسی صفات کی دور ازکار تاویلات کرتے ہیں مگر اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسکتا ہے، جا سکتا ہے، اترسکتا ہے، چڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح جس صورت میں چاہے تجلی فرماسکتا ہے۔ اس کو سب طرح کی قدرت ہے۔ بس اتنی سی بات ہے کہ اللہ کی کسی صفت کو مخلوقات کی صفت سے مشابہت نہیں دے سکتے۔
اس حدیث میں بہت سی باتیں بیان میں آئی ہیں۔ پل صراط کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں دوسری روایت میں ہے کہ اس پل پر سے پار ہونے والے سب سے پہلے میں ہوں گا اور میری امت ہوگی۔ پل صراط پر سعدان نامی درخت کے جیسے آنکڑوں کا ذکر ہے جو سعدان کے کانٹوں کے مشابہ ہوں گے، مقدار میں نہیں کیوں کہ مقدار میں تو وہ بہت بڑے ہوں گے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سعدان عرب کی ایک گھاس کا نام ہے جس میں ٹیڑھے منھ کے کانٹے ہوتے ہیں۔ آگے روایت میں دوزخ پر نشان سجدہ اور مقام سجدہ کے حرام ہونے کا ذکر ہے۔ سجدے کے مقام پیشانی دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں قدم یا صرف پیشانی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سارابدن جل کر کوئلہ ہوگیا ہوگا مگر یہ مقامات سجدہ سالم ہوں گے جن کو دیکھ کر فرشتے پہچان لیں گے کہ یہ موحد مسلمان نمازی تھے۔ آہ بے نمازی مسلمانوں کے پاس کیا علامت ہوگی جس کی وجہ سے انہیں پہچان کر دوزخ سے نکالا جائے؟ آگے روایت میں سب کے بعدجنت میں جانے والے ایک شخص کا ذکر ہے یہ وہ ہوگا جو دوزخ میں سات ہزار برس گزار چکا ہوگا۔ اس کے بعد نکل کر بایں صورت جنت میں جائے گا۔ اسی شخص سے متعلق اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا ذکر ہے۔ یہ بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔ جس کا انکار یا تاویل اہل حدیث نہیں کرتے، نہ اسے مخلوق کی ہنسی سے مشابہت دیتے ہیں۔
اس حدیث میں پروردگار کی دو صفات کا اثبات ہے۔ ایک آنے کا، دوسری صورت کا۔ متکلمین ایسی صفات کی دور ازکار تاویلات کرتے ہیں مگر اہل حدیث یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسکتا ہے، جا سکتا ہے، اترسکتا ہے، چڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح جس صورت میں چاہے تجلی فرماسکتا ہے۔ اس کو سب طرح کی قدرت ہے۔ بس اتنی سی بات ہے کہ اللہ کی کسی صفت کو مخلوقات کی صفت سے مشابہت نہیں دے سکتے۔
اس حدیث میں بہت سی باتیں بیان میں آئی ہیں۔ پل صراط کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں دوسری روایت میں ہے کہ اس پل پر سے پار ہونے والے سب سے پہلے میں ہوں گا اور میری امت ہوگی۔ پل صراط پر سعدان نامی درخت کے جیسے آنکڑوں کا ذکر ہے جو سعدان کے کانٹوں کے مشابہ ہوں گے، مقدار میں نہیں کیوں کہ مقدار میں تو وہ بہت بڑے ہوں گے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سعدان عرب کی ایک گھاس کا نام ہے جس میں ٹیڑھے منھ کے کانٹے ہوتے ہیں۔ آگے روایت میں دوزخ پر نشان سجدہ اور مقام سجدہ کے حرام ہونے کا ذکر ہے۔ سجدے کے مقام پیشانی دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں قدم یا صرف پیشانی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سارابدن جل کر کوئلہ ہوگیا ہوگا مگر یہ مقامات سجدہ سالم ہوں گے جن کو دیکھ کر فرشتے پہچان لیں گے کہ یہ موحد مسلمان نمازی تھے۔ آہ بے نمازی مسلمانوں کے پاس کیا علامت ہوگی جس کی وجہ سے انہیں پہچان کر دوزخ سے نکالا جائے؟ آگے روایت میں سب کے بعدجنت میں جانے والے ایک شخص کا ذکر ہے یہ وہ ہوگا جو دوزخ میں سات ہزار برس گزار چکا ہوگا۔ اس کے بعد نکل کر بایں صورت جنت میں جائے گا۔ اسی شخص سے متعلق اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا ذکر ہے۔ یہ بھی اللہ کی ایک صفت ہے۔ جس کا انکار یا تاویل اہل حدیث نہیں کرتے، نہ اسے مخلوق کی ہنسی سے مشابہت دیتے ہیں۔