‌صحيح البخاري - حدیث 6568

كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ صِفَةِ الجَنَّةِ وَالنَّارِ صحيح وَقَالَ غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ أَوْ مَوْضِعُ قَدَمٍ مِنْ الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَى الْأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَهُمَا وَلَمَلَأَتْ مَا بَيْنَهُمَا رِيحًا وَلَنَصِيفُهَا يَعْنِي الْخِمَارَ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6568

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں باب: جنت و جہنم کا بیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے ایک صبح یا ایک شام سفر کرنا دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے بڑھ کر ہے اور جنت میں تمہاری ایک کمان کے برابر جگہ یا ایک قدم کے فاصلے کے برابر جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، سے بہتر ہے اور اگر جنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت روئے زمین کی طرف جھانک کر دیکھ لے تو آسمان سے لے کر زمین تک منور کردے اور ان تمام کو خوشبو سے بھردے اور اس کا دوپٹہ دنیا و مافیہا سے بڑھ کرہے۔
تشریح : دوسری روایت میں یوں ہے کہ سورج اور چاند کی روشنی ماند پڑجائے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی اوڑھنی کے سامنے سورج کی روشنی ایسی ماند پڑجائے جیسے بتی کی روشنی سورج کے سامنے ماند پڑجاتی ہے۔ اگر اپنی ہتھیلی دکھائے تو ساری خلقت اس کے حسن کی شیدا ہوجائے۔ بعض ملحدوں نے اس قسم کی احادیث پر یہ شبہ کیا ہے کہ جب حور کی روشنی سورج سے بھی زیادہ ہے یا وہ اتنی معطر ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک اس کی خوشبو پہنچتی ہے تو بہشتی لوگ اس کے پاس کیوں کر جاسکیں گے اور اتنی خوشبودار اور روشنی کی تاب کیوں کر لاسکیں گے۔ ان کا جواب یہ ہے کہ بہشت میں ہم لوگوں کی زندگی اور طاقت اور قسم کی ہوگی جو ان سب باتوں کا تحمل کرسکیں گے۔ جیسے دوسری آیتوں اور احادیث میں دوزخیوں کے ایسے ایسے عذاب بیان ہوئے ہیں کہ اگر دنیا میں اس کا دسواں حصہ بھی عذاب دیا جائے تو فوراً مرجائے لیکن دوزخی ان عذابوں کا تحمل کرسکیں گے اور زندہ رہیں گے۔ بہرحال آخرت کے حالات کو دنیا کے حالات پر قیاس کرنا اور ہرایک بات میں استعباد کرنا صریح نادانی ہے۔ روایت میں مذکور حارثہ بن سراقہ بن حارث بن عدی مراد ہیں۔ ان کی والدہ کا نام ربیع بنت نضر ہے۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ سورج اور چاند کی روشنی ماند پڑجائے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی اوڑھنی کے سامنے سورج کی روشنی ایسی ماند پڑجائے جیسے بتی کی روشنی سورج کے سامنے ماند پڑجاتی ہے۔ اگر اپنی ہتھیلی دکھائے تو ساری خلقت اس کے حسن کی شیدا ہوجائے۔ بعض ملحدوں نے اس قسم کی احادیث پر یہ شبہ کیا ہے کہ جب حور کی روشنی سورج سے بھی زیادہ ہے یا وہ اتنی معطر ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک اس کی خوشبو پہنچتی ہے تو بہشتی لوگ اس کے پاس کیوں کر جاسکیں گے اور اتنی خوشبودار اور روشنی کی تاب کیوں کر لاسکیں گے۔ ان کا جواب یہ ہے کہ بہشت میں ہم لوگوں کی زندگی اور طاقت اور قسم کی ہوگی جو ان سب باتوں کا تحمل کرسکیں گے۔ جیسے دوسری آیتوں اور احادیث میں دوزخیوں کے ایسے ایسے عذاب بیان ہوئے ہیں کہ اگر دنیا میں اس کا دسواں حصہ بھی عذاب دیا جائے تو فوراً مرجائے لیکن دوزخی ان عذابوں کا تحمل کرسکیں گے اور زندہ رہیں گے۔ بہرحال آخرت کے حالات کو دنیا کے حالات پر قیاس کرنا اور ہرایک بات میں استعباد کرنا صریح نادانی ہے۔ روایت میں مذکور حارثہ بن سراقہ بن حارث بن عدی مراد ہیں۔ ان کی والدہ کا نام ربیع بنت نضر ہے۔