كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابٌ الأَعْمَالُ بِالخَوَاتِيمِ، وَمَا يُخَافُ مِنْهَا صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الأَلْهَانِيُّ الحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ يُقَاتِلُ المُشْرِكِينَ، وَكَانَ مِنْ أَعْظَمِ المُسْلِمِينَ غَنَاءً عَنْهُمْ، فَقَالَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا» فَتَبِعَهُ رَجُلٌ، فَلَمْ يَزَلْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى جُرِحَ، فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَقَالَ بِذُبَابَةِ سَيْفِهِ فَوَضَعَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، فَتَحَامَلَ عَلَيْهِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ العَبْدَ لَيَعْمَلُ، فِيمَا يَرَى النَّاسُ، عَمَلَ أَهْلِ الجَنَّةِ وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ، عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الجَنَّةِ، وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِخَوَاتِيمِهَا»
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: عملوں کا اعتبار خاتمہ پر ہے اور خاتمہ سے ڈرتے رہنا
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا، ان سے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو مشرکین سے جنگ میں مصروف تھا ، یہ شخص مسلمانوں کے صاحب مال ودولت لوگوں میں سے تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کو ئی چاہتا ہے کہ کسی جہنمی کو دیکھے و ہ اس شخص کو دیکھے ۔ اس پر ایک صحابی اس شخص کے پیچھے لگ گئے وہ شخص برابر لڑتا رہااور آخر زخمی ہوگیا۔ پھر اس نے چاہا کہ جلدی مرجائے ۔ پس اپنی تلوار ہی کی دھار اپنے سینے کے درمیان رکھ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیا اور تلوار اس کے شانوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی ( اس طرح وہ خودکشی کرکے مرگئے ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بندہ لوگوں کی نظرمیں اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جہنم میں سے ہوتا ہے ۔ ایک دوسرا بندہ لوگوں کی نظرمیں اہل جہنم کے کام کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا اعتبار تو خاتمہ پر موقوف ہے۔
تشریح :
یعنی آخر مرتے وقت جس نے جیسا کام کیا اسی کا اعتبار ہوگا اگر ساری عمر عبادت اور تقویٰ میں گزاری لیکن مرتے وقت گناہ میں گرفتار ہوا تو پچھلے نیک اعمال کچھ فائدہ نہ دیں گے اللہ سوء خاتمہ سے بچائے۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو گووہ فاسق فاجر ہو یا صالح اور پرہیز گار ہم قطعی طور پر دوزخی یا جنتی نہیں کہہ سکتے۔ معلوم نہیں کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوتاہے اور اللہ کے ہاں اس کا نام کن لوگوں میں لکھا ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مسلمان کو اپنے اعمال صالحہ پر مغرور نہ ہونا چاہئے اور سوء خاتمہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے۔ بزرگوں نے تجر بہ کیا ہے کہ اہل حدیث اور اہل بیت نبوی سے محبت رکھنے والوں کا خاتمہ اکثر بہتر ہوتا ہے۔ یا اللہ !مجھ نا چیز کو بھی ہمیشہ اہل حدیث اور آل رسول سے محبت رہی ہے اور جس کو سادات سے پایادل سے اس کا احترام کیا ہے مجھ ناچیز حقیر گنہگار کو بھی خاتمہ بالخیر نصیب کہ برقول ایمان کنم خاتمہ۔ آمین۔
یعنی آخر مرتے وقت جس نے جیسا کام کیا اسی کا اعتبار ہوگا اگر ساری عمر عبادت اور تقویٰ میں گزاری لیکن مرتے وقت گناہ میں گرفتار ہوا تو پچھلے نیک اعمال کچھ فائدہ نہ دیں گے اللہ سوء خاتمہ سے بچائے۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ کسی کلمہ گو مسلمان کو گووہ فاسق فاجر ہو یا صالح اور پرہیز گار ہم قطعی طور پر دوزخی یا جنتی نہیں کہہ سکتے۔ معلوم نہیں کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوتاہے اور اللہ کے ہاں اس کا نام کن لوگوں میں لکھا ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مسلمان کو اپنے اعمال صالحہ پر مغرور نہ ہونا چاہئے اور سوء خاتمہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہئے۔ بزرگوں نے تجر بہ کیا ہے کہ اہل حدیث اور اہل بیت نبوی سے محبت رکھنے والوں کا خاتمہ اکثر بہتر ہوتا ہے۔ یا اللہ !مجھ نا چیز کو بھی ہمیشہ اہل حدیث اور آل رسول سے محبت رہی ہے اور جس کو سادات سے پایادل سے اس کا احترام کیا ہے مجھ ناچیز حقیر گنہگار کو بھی خاتمہ بالخیر نصیب کہ برقول ایمان کنم خاتمہ۔ آمین۔