‌صحيح البخاري - حدیث 6469

كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ الرَّجَاءِ مَعَ الخَوْفِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الرَّحْمَةَ يَوْمَ خَلَقَهَا مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً، وَأَرْسَلَ فِي خَلْقِهِ كُلِّهِمْ رَحْمَةً وَاحِدَةً، فَلَوْ يَعْلَمُ الكَافِرُ بِكُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الرَّحْمَةِ لَمْ يَيْئَسْ مِنَ الجَنَّةِ، وَلَوْ يَعْلَمُ المُؤْمِنُ بِكُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللَّهِ مِنَ العَذَابِ لَمْ يَأْمَنْ مِنَ النَّارِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6469

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں باب: اللہ کے خوف کے ساتھ امید بھی رکھنا ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، انہوں نے کہاہم سے یعقوب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے عمروبن ابی عمرو نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی مقبری نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو جس دن بنایا تو اس کے سوحصے کئے اور اپنے پاس ان میں سے نناوے رکھے ۔ اس کے بعد تمام مخلوق کے لئے صرف ایک حصہ رحمت کا بھیجا ۔ پس اگر کا فروں کو وہ تمام رحم معلوم ہوجائے جو اللہ کے پاس ہے تو وہ جنت سے نا امیدی نہ ہواور اگر مومن کو وہ تمام عذاب معلوم ہوجائیں جو اللہ کے پاس ہیں تو دوزخ سے کبھی بے خوف نہ ہو۔
تشریح : یہی امید اور خوف ہے جس کے درمیان ایمان ہے امید بھی کامل اور خوف بھی پوراپورا۔ اللہم ارزقنا آمین۔ مومن کتنے بھی نیک اعمال کرتاہو لیکن ہروقت اس کو ڈررہتا ہے شاید میری نیکیاں بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہوئی ہوں اور شاید میرا خاتمہ براہوجائے۔ ابوعثمان نے کہاگناہ کرتے جانا اور پھر نجات کی امید رکھنا بد بختی کی نشانی ہے علماء نے کہا ہے کہ حالت صحت میں اپنے دل پر خوف غالب رکھے اور مرتے وقت اس کے رحم وکرم کی امید زیادہ رکھے۔ یہی امید اور خوف ہے جس کے درمیان ایمان ہے امید بھی کامل اور خوف بھی پوراپورا۔ اللہم ارزقنا آمین۔ مومن کتنے بھی نیک اعمال کرتاہو لیکن ہروقت اس کو ڈررہتا ہے شاید میری نیکیاں بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہوئی ہوں اور شاید میرا خاتمہ براہوجائے۔ ابوعثمان نے کہاگناہ کرتے جانا اور پھر نجات کی امید رکھنا بد بختی کی نشانی ہے علماء نے کہا ہے کہ حالت صحت میں اپنے دل پر خوف غالب رکھے اور مرتے وقت اس کے رحم وکرم کی امید زیادہ رکھے۔