‌صحيح البخاري - حدیث 6467

كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ القَصْدِ وَالمُدَاوَمَةِ عَلَى العَمَلِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا [ص:99]، فَإِنَّهُ لا يُدْخِلُ أَحَدًا الجَنَّةَ عَمَلُهُ» قَالُوا: وَلاَ أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَلا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِمَغْفِرَةٍ وَرَحْمَةٍ» قَالَ: أَظُنُّهُ عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَقَالَ عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا» قَالَ مُجَاهِدٌ: {قَوْلًا سَدِيدًا} [النساء: 9]: وَسَدَادًا: صِدْقًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6467

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں باب: نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا ( نہ کمی ہو نہ زیادتی ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زبرقان نے ، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے ، ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو جو نیک کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ بلکہ اس کے قریب رہو ( میانہ روی اختیار کرو ) اور خوش رہو اور یا درکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا ۔ صحابہ نے عرض کیا اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ ! فرمایا اور میں بھی نہیں ۔ سوا اس کے کہ اللہ اپنی مغفرت ورحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانک لے۔ مدینی نے بیان کیاکہ میرا خیال ہے کہ موسیٰ بن عقبہ نے یہ حدیث ابو سلمہ سے ابو النصر کے واسطے سے سنی ہے۔ ابوسلمہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ اور عفان بن مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے سنااور ا نہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا درستی کے ساتھ عمل کرو اور خوش رہو۔ اور مجاہد نے بیان کیاکہ ” سداداًسدیداً “ ہردوکے معنیٰ صدق کے ہیں ۔
تشریح : یعنی سچائی کو ہر حال میں اختیار کرو تم اعمال خیر کروگے تم کو جنت کی بلکہ دنیا میں بھی کامیابی کی بشارت ہے۔ قرآن کی آیت قولواقولا سدیدا ( الاعراف:43 ) کی طرف اشارہ ہے۔ عفان بن مسلم حضرت اما م بخاری کے استاد ہیں اس سند کو لاکر امام بخاری نے علی بن عبد اللہ مدینی کا گمان رفع کیا کہ اگلی روایت منقطع ہے کیونکہ اس میں موسیٰ کے سماع کی ابو سلمہ سے صراحت ہے حدیث میں سدوداکا لفظ آیا تھا سدیداسدادا کا بھی وہی مادہ ہے اس مناسبت سے امام بخاری نے اس کی تفسیر یہاں بیان کردی۔ قرآن شریف میں جو ہے وتلک الجنۃ التی اورثتموھا بما کنتم تعملون ( الاعراف : 43 ) اس کے معارض نہیں ہے کیونکہ عمل صالح بھی منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے لیکن اصلی سبب رحمت اور عنایت الٰہی ہے بعض نے کہا آیت میں ترقی درجات مراد ہے نہ محض دخول جنت اور ترقی اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہوگی اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں اعمال صالحہ کرنے والے کو بہشت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے۔ معاذاللہ منہ۔ یعنی سچائی کو ہر حال میں اختیار کرو تم اعمال خیر کروگے تم کو جنت کی بلکہ دنیا میں بھی کامیابی کی بشارت ہے۔ قرآن کی آیت قولواقولا سدیدا ( الاعراف:43 ) کی طرف اشارہ ہے۔ عفان بن مسلم حضرت اما م بخاری کے استاد ہیں اس سند کو لاکر امام بخاری نے علی بن عبد اللہ مدینی کا گمان رفع کیا کہ اگلی روایت منقطع ہے کیونکہ اس میں موسیٰ کے سماع کی ابو سلمہ سے صراحت ہے حدیث میں سدوداکا لفظ آیا تھا سدیداسدادا کا بھی وہی مادہ ہے اس مناسبت سے امام بخاری نے اس کی تفسیر یہاں بیان کردی۔ قرآن شریف میں جو ہے وتلک الجنۃ التی اورثتموھا بما کنتم تعملون ( الاعراف : 43 ) اس کے معارض نہیں ہے کیونکہ عمل صالح بھی منجملہ اسباب دخول جنت ایک سبب ہے لیکن اصلی سبب رحمت اور عنایت الٰہی ہے بعض نے کہا آیت میں ترقی درجات مراد ہے نہ محض دخول جنت اور ترقی اعمال صالحہ کے لحاظ سے ہوگی اس حدیث سے معتزلہ کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں اعمال صالحہ کرنے والے کو بہشت میں لے جانا اللہ پر واجب ہے۔ معاذاللہ منہ۔