‌صحيح البخاري - حدیث 6452

كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابٌ كَيْفَ كَانَ عَيْشُ النَّبِيِّ ﷺوَأَصْحَابِهِ، وَتَخَلِّيهِمْ مِنَ الدُّنْيَا صحيح حَدَّثَنِي أَبُو نُعَيْمٍ - بِنَحْوٍ مِنْ نِصْفِ هَذَا الحَدِيثِ - حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، كَانَ يَقُولُ: أَللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ، إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الأَرْضِ مِنَ الجُوعِ، وَإِنْ كُنْتُ لَأَشُدُّ الحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الجُوعِ، وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ مِنْهُ، فَمَرَّ أَبُو بَكْرٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي، فَمَرَّ فَلَمْ يَفْعَلْ، ثُمَّ مَرَّ بِي أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، وَعَرَفَ مَا فِي نَفْسِي وَمَا فِي وَجْهِي، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا هِرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الحَقْ» وَمَضَى فَتَبِعْتُهُ، فَدَخَلَ، فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنَ لِي، فَدَخَلَ، فَوَجَدَ لَبَنًا فِي قَدَحٍ، فَقَالَ: «مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ؟» قَالُوا: أَهْدَاهُ لَكَ فُلاَنٌ أَوْ فُلاَنَةُ، قَالَ: «أَبَا هِرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «الحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ لِي» قَالَ: وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ الإِسْلاَمِ، لاَ يَأْوُونَ إِلَى أَهْلٍ وَلاَ مَالٍ وَلاَ عَلَى أَحَدٍ، إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، فَسَاءَنِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ: وَمَا هَذَا اللَّبَنُ فِي أَهْلِ الصُّفَّةِ، كُنْتُ أَحَقُّ أَنَا أَنْ أُصِيبَ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ شَرْبَةً أَتَقَوَّى بِهَا، فَإِذَا جَاءَ أَمَرَنِي، فَكُنْتُ أَنَا أُعْطِيهِمْ، وَمَا عَسَى أَنْ يَبْلُغَنِي مِنْ هَذَا اللَّبَنِ، وَلَمْ يَكُنْ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدٌّ، فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ [ص:97] فَأَقْبَلُوا، فَاسْتَأْذَنُوا فَأَذِنَ لَهُمْ، وَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ مِنَ البَيْتِ، قَالَ: «يَا أَبَا هِرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «خُذْ فَأَعْطِهِمْ» قَالَ: فَأَخَذْتُ القَدَحَ، فَجَعَلْتُ أُعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ القَدَحَ، فَأُعْطِيهِ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ القَدَحَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ثُمَّ يَرُدُّ عَلَيَّ القَدَحَ، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوِيَ القَوْمُ كُلُّهُمْ، فَأَخَذَ القَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدِهِ، فَنَظَرَ إِلَيَّ فَتَبَسَّمَ، فَقَالَ: «أَبَا هِرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «بَقِيتُ أَنَا وَأَنْتَ» قُلْتُ: صَدَقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «اقْعُدْ فَاشْرَبْ» فَقَعَدْتُ فَشَرِبْتُ، فَقَالَ: «اشْرَبْ» فَشَرِبْتُ، فَمَا زَالَ يَقُولُ: «اشْرَبْ» حَتَّى قُلْتُ: لاَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، قَالَ: «فَأَرِنِي» فَأَعْطَيْتُهُ القَدَحَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى وَشَرِبَ الفَضْلَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6452

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں باب: نبی کریم ﷺاور آپ ﷺ کے صحابہ کے گزران کا بیان اور دنیا کے مزوں سے ان کا علیحدہ رہنا مجھ سے ابو نعیم نے یہ حدیث آدھی کے قریب بیان کی اور آدھی دوسرے شخص نے، کہاہم سے عمر بن ذرنے بیان کیا ، کہاہم سے مجاہد نے بیان کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہاکرتے تھے کہ ” اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ( زمانہ نبوی میں ) بھوک کے مارے زمین پر اپنے پیٹ کے بل لیٹ جاتا تھا اور کبھی میں بھوک کے مارے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس سے صحابہ نکلتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گزر ے اور میں نے ان سے کتاب اللہ کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا ، میرے پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلادیں مگر وہ چلے گئے اور کچھ نہیں کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے ، میں نے ان سے بھی قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی اور پوچھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ بھی گزر گئے اور کچھ نہیں کیا ۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور آ پ نے جب مجھے دیکھا تو آپ مسکرا دئےے اور آپ میرے دل کی بات سمجھ گئے اور میرے چہرے کو آپ نے تاڑلیا۔ پھر آپ نے فرمایا اباہر! میںنے عرض کیا لبیک ، یا رسول اللہ! فرمایا میرے ساتھ آجاؤ اور آپ چلنے لگے ۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل دیا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اندر گھر میں تشریف لے گئے ۔ پھر میں نے اجازت چاہی اور مجھے اجازت ملی ۔ جب آپ داخل ہوئے تو ایک پیالے دودھ ملا ۔ دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ کہا فلاںیافلانی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحفہ میں بھیجا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اباہر! میں نے عرض کیا لبیک ، یارسول اللہ ! فرمایا ، اہل صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں بھی میرے پاس بلا لاؤ ۔ کہا کہ اہل صفہ اسلام کے مہمان ہیں ، وہ نہ کسی کے گھر پناہ ڈھونڈھتے ، نہ کسی کے مال میں اور نہ کسی کے پاس ! جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا تو اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ نہیں رکھتے ۔ البتہ جب آپ کے پاس تحفہ آتا تو انہیں بلا بھیجتے اور خود بھی اس میں سے کچھ کھاتے اور انہیں بھی شریک کرتے ۔ چنانچہ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حق دار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا ۔ جب صفہ والے آئیں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمائیںگے اور میں انہیں اسے دے دوں گا ۔ مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی حکم برداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچائی ، وہ آگئے اور اجازت چاہی۔ انہیں اجازت مل گئی پھر وہ گھر میں اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اباہر! میں نے عرض کیا لبیک، یارسول اللہ ! فرمایا لواور اسے ان سب حاضرین کودے دو۔ بیان کیا کہ پھر میں نے پیالہ پکڑلیا اور ایک ایک کو دینے لگا ۔ ایک شخص دودھ پی کر جب سیراب ہوجاتا تومجھے پیالہ واپس کردیتا پھر دوسرے شخص کو دیتا وہ بھی سیراب ہوکر پیتا پھر پیالہ مجھ کو واپس کردیتا اور اسی طرح تیسرا پی کر پھر مجھے پیالہ واپس کردیتا ۔ اس طرح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا لوگ پی کر سیراب ہوچکے تھے۔ آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ پکڑا اور اپنے ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اورمسکرا کر فرمایا ، اباہر! میںنے عرض کیا، لبیک ، یارسول اللہ ! فرمایا، اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں ، میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ نے سچ فرمایا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پیو۔ میں بیٹھ گیا اور میںنے دودھ پیااور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے رہے کہ اور پیو آخر مجھے کہنا پڑا ، نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اب بالکل گنجائش نہیں ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا خود پی گئے۔
تشریح : مسجد نبوی کے سائبان کے نیچے ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا جس پر بے گھر بے درمشتاقان علم قرآن وحدیث سکونت رکھتے تھے، یہی اصحاب صفہ تھے۔ ان ہی میںسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حدیث میں آپ کے کھلے ہوئے ایک بابرکت معجزہ کا ذکر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو بے صبری کا خیا ل کیا تھاکہ دیکھئے دودھ میرے لئے بچتا ہے یا نہیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادئیے۔ سچ ہے خلق الانسان ھلوعاً۔ مسجد نبوی کے سائبان کے نیچے ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا جس پر بے گھر بے درمشتاقان علم قرآن وحدیث سکونت رکھتے تھے، یہی اصحاب صفہ تھے۔ ان ہی میںسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے حدیث میں آپ کے کھلے ہوئے ایک بابرکت معجزہ کا ذکر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو بے صبری کا خیا ل کیا تھاکہ دیکھئے دودھ میرے لئے بچتا ہے یا نہیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادئیے۔ سچ ہے خلق الانسان ھلوعاً۔