كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا» صحيح حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ المَدِينَةِ، فَاسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «مَا يَسُرُّنِي أَنَّ عِنْدِي مِثْلَ أُحُدٍ هَذَا ذَهَبًا، تَمْضِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا» عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، ثُمَّ مَشَى فَقَالَ: «إِنَّ الأَكْثَرِينَ هُمُ الأَقَلُّونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا - عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَمِنْ خَلْفِهِ - [ص:95] وَقَلِيلٌ مَا هُمْ» ثُمَّ قَالَ لِي: «مَكَانَكَ لاَ تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ» ثُمَّ انْطَلَقَ فِي سَوَادِ اللَّيْلِ حَتَّى تَوَارَى، فَسَمِعْتُ صَوْتًا قَدِ ارْتَفَعَ، فَتَخَوَّفْتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عَرَضَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَهُ فَذَكَرْتُ قَوْلَهُ لِي: «لاَ تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ» فَلَمْ أَبْرَحْ حَتَّى أَتَانِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتًا تَخَوَّفْتُ، فَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: «وَهَلْ سَمِعْتَهُ» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا میرے پاس ہوتو بھی مجھ کو یہ پسند نہیں آخرحدیث تک
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا ، کہاہم سے ابو الاحوص ( سلام بن سلیم ) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے کہ حضرت ابوذرغفار ی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ کے ساتھ مدینہ کے پتھر یلے علاقہ میں چل رہا تھا کہ احد پہاڑہمارے سامنے آگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے دریافت فرمایا ابوذر ! میں نے عرض کیا حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تےن دن اس طرح گذر جائےں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوا اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائگی کے لئے چھوڑ دوں بلکہ میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح خرچ کروں اپنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا زیادہ مال جمع رکھنے والے ہی قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوا اس شخص کے جو اس مال کو اس اس طرح دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے خرچ کرے اور ایسے لوگ کم ہیں ۔ پھر مجھ سے فرمایا ، یہیں ٹھہرے رہو، یہا ں سے اس وقت تک نہ جانا جب تک میں آنہ جاؤں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کی تاریکی میں چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی جو بلند تھی۔ مجھے ڈرلگا کہ کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دشواری نہ پیش آگئی ہو ۔ میں نے آپ کی خدمت میں پہنچنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کا ارشاد یا دآیا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، جب تک میں نہ آجاؤں ۔ چنانچہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے میں وہاں سے نہیں ہٹا۔ پھر آپ آئے مےں نے عرض کےا ےا رسول اللہ! مےں نے ایک آواز سنی تھی، مجھے ڈرلگا لیکن پھر آپ کا ارشاد یاد آیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم نے سنا تھا؟ میں نے عرض کیا ، جی ہاں۔ فرمایاکہ وہ جبریل علیہ السلام تھے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی امت کا جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہوتو جنت میں جائے گا ۔ میں نے پوچھا خواہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو؟ انہوں نے کہا ہاں زنا اور چوری ہی کیوں نہ کی ہو۔
تشریح :
اہل سنت کا مذہب گنہگار مومن کے بارے میں جو بغیر توبہ کئے مرجائے یہی ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر ہے خواہ گناہ معاف کرکے اس کو بلا عذاب جنت میں داخل کرے یا چند روز عذاب کرکے اسے بخش دے لیکن مرجیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مومن ہو تو کوئی گناہ اس کو ضررنہ کرے گا اور معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ بلا توبہ مرجائے تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ یہ ہر دوقول غلط ہیں اور اہل سنت ہی کا مذہب صحیح ہے۔ مومن مسلمان کے لئے بہر حال بخشش مقدرہے۔ یا اللہ !اپنی بخشش سے ہم کو بھی سرفراز فرمائیو۔ ( آمین )
اہل سنت کا مذہب گنہگار مومن کے بارے میں جو بغیر توبہ کئے مرجائے یہی ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر ہے خواہ گناہ معاف کرکے اس کو بلا عذاب جنت میں داخل کرے یا چند روز عذاب کرکے اسے بخش دے لیکن مرجیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مومن ہو تو کوئی گناہ اس کو ضررنہ کرے گا اور معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ بلا توبہ مرجائے تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ یہ ہر دوقول غلط ہیں اور اہل سنت ہی کا مذہب صحیح ہے۔ مومن مسلمان کے لئے بہر حال بخشش مقدرہے۔ یا اللہ !اپنی بخشش سے ہم کو بھی سرفراز فرمائیو۔ ( آمین )