كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابٌ المُكْثِرُونَ هُمُ المُقِلُّونَ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْتُ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَحْدَهُ، وَلَيْسَ مَعَهُ إِنْسَانٌ، قَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَكْرَهُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَهُ أَحَدٌ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَمْشِي فِي ظِلِّ القَمَرِ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي، فَقَالَ: «مَنْ هَذَا» قُلْتُ: أَبُو ذَرٍّ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ تَعَالَهْ» قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ: «إِنَّ المُكْثِرِينَ هُمُ المُقِلُّونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ خَيْرًا، فَنَفَحَ فِيهِ يَمِينَهُ وَشِمَالَهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ وَوَرَاءَهُ، وَعَمِلَ فِيهِ خَيْرًا» قَالَ: فَمَشَيْتُ مَعَهُ سَاعَةً، فَقَالَ لِي: «اجْلِسْ هَا هُنَا» قَالَ: فَأَجْلَسَنِي فِي قَاعٍ حَوْلَهُ حِجَارَةٌ، فَقَالَ لِي: «اجْلِسْ هَا هُنَا حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ» قَالَ: فَانْطَلَقَ فِي الحَرَّةِ حَتَّى لاَ أَرَاهُ، فَلَبِثَ عَنِّي فَأَطَالَ اللُّبْثَ، ثُمَّ إِنِّي سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُقْبِلٌ، وَهُوَ يَقُولُ: «وَإِنْ سَرَقَ، وَإِنْ زَنَى» قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ لَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ، مَنْ تُكَلِّمُ فِي جَانِبِ الحَرَّةِ، مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَرْجِعُ إِلَيْكَ شَيْئًا؟ قَالَ: ذَلِكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، عَرَضَ لِي فِي جَانِبِ الحَرَّةِ، قَالَ: بَشِّرْ أُمَّتَكَ أَنَّهُ مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ، قُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، وَإِنْ سَرَقَ، وَإِنْ زَنَى؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ سَرَقَ، وَإِنْ زَنَى؟ قَالَ: «نَعَمْ، وَإِنْ شَرِبَ الخَمْرَ» قَالَ النَّضْرُ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، وَالأَعْمَشُ، وَعَبْدُ العَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، بِهَذَا، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، مُرْسَلٌ لاَ يَصِحُّ، إِنَّمَا أَرَدْنَا لِلْمَعْرِفَةِ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ»، قِيلَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: حَدِيثُ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: مُرْسَلٌ أَيْضًا لاَ يَصِحُّ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ وَقَالَ: اضْرِبُوا عَلَى حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ هَذَا: إِذَا مَاتَ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، عِنْدَ المَوْتِ
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: جو لوگ دنیا میں زیادہ مالدار ہیں وہی آخرت میں زیادہ
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہاہم سے جریر بن عبد الحمید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن رفیع نے ، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک روز میںباہر نکلاتو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا چل رہے تھے اور آپ کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ ابوذررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس سے میں سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند نہیں فرمائیں گے کہ آپ کے ساتھ اس وقت کوئی رہے۔ اس لئے میں چاند کے سائے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا ۔ اس کے بعد آپ مڑے تو مجھے دیکھا اور دریافت فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا ابوذر! اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابو ذر! یہاں آؤ ۔ بیان کیا کہ پھر میں تھوڑی دیر تک آپ کے ساتھ چلتا رہا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایاکہ جو لوگ ( دنیا میں ) زیادہ مال ودولت جمع کئے ہوئے ہیں قیامت کے دن وہی خسارے میں ہوں گے۔ سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مال دیاہو اور انہوں نے اسے دائیں بائیں ، آگے پیچھے خرچ کیا ہوا ور اسے بھلے کاموں میں لگایا ہو ۔ ( ابوذر رضی اللہ عنہ نے ) بیان کیا کہ پھر تھوڑی دیر تک میں آپ کے ساتھ چلتا رہا ۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہاں بیٹھ جاؤ۔ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلمنے مجھے ایک ہموار زمین پر بٹھا دیا جس کے چاروں طرف پتھر تھے اور فرمایا کہ یہاں اس وقت تک بیٹھے رہو جب تک میں تمہارے پاس لوٹ آؤں ۔ پھر آپ پتھریلی زمین کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ آپ وہاں رہے اور دیر تک وہیں رہے۔ پھر میں نے آپ سے سنا، آپ یہ کہتے ہوئے تشریف لارہے تھے ” چاہے چوری ہو، چاہے زناہو۔ “ ابوذر کہتے ہیں کہ جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مجھ سے صبر نہیں ہوسکا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے۔ اس پتھریلی زمین کے کنارے آپ کس سے باتیں کررہے تھے ۔ میں نے تو کسی دوسرے کو آپ سے بات کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” یہ جبریل علیہ السلام تھے۔ پتھریلی زمین ( حرہ ) کے کنارے وہ مجھ سے ملے اور کہا کہ اپنی امت کو خوش خبری سنا دو کہ جو بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہوتو وہ جنت میں جائے گا ۔ میں نے عرض کیا اے جبریل ! خواہ اس نے چوری کی ہو ، زناکیا ہو؟ جبریل ؑ نے کہا ہاں ، خواہ اس نے شراب ہی پی ہو۔ “ نضرنے بیان کیا کہ ہمیں شعبہ نے خبردی ( کہا ) ہم سے حبیب بن ابی ثابت ، اعمش اور عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا ، ان سے زید بن وہب نے اسی طرح بیان کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ابو صالح نے جو اسی باب میں ابو درداءسے روایت کی ہے وہ منقطع ہے ( ابو صالح نے ابودرداءسے نہیں سنا ) اور صحیح نہیں ہے ہم نے یہ بیان کردیا تاکہ اس حدیث کا حال معلوم ہوجائے اور صحیح ابوذر کی حدیث ہے ( جو اوپر مذکورہوئی ) کسی نے امام بخاری سے پوچھا عطاءبن یسار نے بھی تو یہ حدیث ابودرداءسے روایت کی ہے۔ انہوں نے کہاوہ بھی منقطع ہے اور صحیح نہیں ہے ۔ آخر صحیح وہی ابوذر کی حدیث نکلی ۔ امام بخاری نے کہا ابودرداءکی حدیث کو چھوڑو ( وہ سند لینے کے لائق نہیں ہے کیونکہ مرتے وقت آدمی لا الٰہ الا اللہ کہے اور توحید پر خاتمہ ہو ( تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور جنت میں جائے گا گو کتنا ہی گنہگارہو۔ بعض نسخوں میں یہ ہے ھذا اذاتاب وقال لاالٰہ الا اللہ عند الموت یعنی ابوذرکی حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو گناہ سے توبہ کرے اور مرتے وقت لا الٰہ الا اللہ کہے ۔
تشریح :
زید بن وہب کی سند کے بیان کر نے سے امام بخاری نے عبد العزیز کا سماع زید بن وہب سے ثابت کردیا اور تدلیس کے شبہ کو رفع کردیا۔
زید بن وہب کی سند کے بیان کر نے سے امام بخاری نے عبد العزیز کا سماع زید بن وہب سے ثابت کردیا اور تدلیس کے شبہ کو رفع کردیا۔