‌صحيح البخاري - حدیث 644

كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ وُجُوبِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ، فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ، أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ، لَشَهِدَ العِشَاءَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 644

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں باب: جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر نماز کے لیے کہوں، اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں ( جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے ) پھر انھیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ جماعت میں نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں کہ انھیں مسجد میں ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھر ہی مل جائیں گے تو یہ عشاء کی جماعت کے لیے مسجد میں ضرور حاضر ہو جائیں
تشریح : اس حدیث سے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا جس قدر ضروری معلوم ہوتاہے وہ الفاظ حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکین جماعت کے لیے ان کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی لیے جن علماءنے نماز کو جماعت کے ساتھ فرض قراردیاہے یہ حدیث ان کی اہم دلیل ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث استدل بہ القائلون بوجوب صلوٰۃ الجماعۃ لانہا لوکانت سنۃ لم یہدد تارکہا بالتحریق۔ یعنی اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو نماز باجماعت کو واجب قراردیتے ہیں۔ اگریہ محض سنت ہوتی تواس کے چھوڑنے والے کو آگ میں جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ اگرنماز باجماعت ہی فرض ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بغیر جلائے نہ چھوڑتے۔ آپ کا اس سے رک جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ نیل الاوطار میں تفصیل سے ان مباحت کو لکھا گیاہے۔ من شاءفلیرجع الیہ۔ اس حدیث سے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا جس قدر ضروری معلوم ہوتاہے وہ الفاظ حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکین جماعت کے لیے ان کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی لیے جن علماءنے نماز کو جماعت کے ساتھ فرض قراردیاہے یہ حدیث ان کی اہم دلیل ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث استدل بہ القائلون بوجوب صلوٰۃ الجماعۃ لانہا لوکانت سنۃ لم یہدد تارکہا بالتحریق۔ یعنی اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو نماز باجماعت کو واجب قراردیتے ہیں۔ اگریہ محض سنت ہوتی تواس کے چھوڑنے والے کو آگ میں جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ اگرنماز باجماعت ہی فرض ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بغیر جلائے نہ چھوڑتے۔ آپ کا اس سے رک جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ نیل الاوطار میں تفصیل سے ان مباحت کو لکھا گیاہے۔ من شاءفلیرجع الیہ۔