‌صحيح البخاري - حدیث 6427

كِتَابُ الرِّقَاقِ بَابُ مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهَرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيهَا صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَكْثَرَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ بَرَكَاتِ الأَرْضِ» قِيلَ: وَمَا بَرَكَاتُ الأَرْضِ؟ قَالَ: «زَهْرَةُ الدُّنْيَا» فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: هَلْ يَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَصَمَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، ثُمَّ جَعَلَ يَمْسَحُ عَنْ جَبِينِهِ، فَقَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ؟» قَالَ: أَنَا - قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَقَدْ حَمِدْنَاهُ حِينَ طَلَعَ ذَلِكَ - قَالَ: «لاَ يَأْتِي الخَيْرُ إِلَّا بِالخَيْرِ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، وَإِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الخَضِرَةِ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا، اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، فَاجْتَرَّتْ وَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ. وَإِنَّ هَذَا المَالَ حُلْوَةٌ، مَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ، وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ، فَنِعْمَ المَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6427

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں باب: دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرنا ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہاکہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطا ءبن یسار نے اور ان سے ابو سعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے متعلق سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ زمین کی برکتیں تمہارے لئے نکال دے گا۔ پوچھا گیا زمین کی برکتیں کےا ہیں ؟ فرمایا کہ دنیا کی چمک دمک ، اس پر ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا بھلائی سے برائی پیدا ہوسکتی ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہوگئے اور ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ وحی نازل ہورہی ہے۔ اس کے بعد اپنی پیشانی کو صاف کرنے لگے اوردریافت فرمایا، پوچھنے والے کہاں ہیں؟ پوچھنے والے نے کہاکہ حاضر ہوں ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس سوال کا حل ہمارے سامنے آگیا توہم نے ان صاحب کی تعریف کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بھلائی سے تو صرف بھلائی ہی پیدا ہوتی ہے لیکن یہ مال سرسبز اور خوشگوار ( گھاس کی طرح ) ہے اور جو چیزبھی ربیع کے موسم میں اگتی ہیں وہ حرص کے ساتھ کھانے والوں کو ہلاک کردیتی ہیں یا ہلاکت کے قریب پہنچادیتی ہیں ۔ سوائے اس جانور کے جو پیٹ بھر کے کھائے کہ جب اس نے کھا لیا اور اس کی دونوں کوکھ بھر گئیں تو اس نے سورج کی طرف منہ کرکے جگالی کرلی اور پھر پاخانہ پیشاب کردیا اور اس کے بعد پھر لوٹ کے کھالیا اور یہ مال بھی بہت شیریں ہے جس نے اسے حق کے ساتھ لیا اور حق میں خرچ کیا تو وہ بہترین ذریعہ ہے اور جس نے اسے ناجائز طریقہ سے حاصل کیا تو وہ اس شخص جیسا ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔
تشریح : اس اعتدال پر اشارہ ہے جسے ہریالی چرنے والے جانور کی مثال سے بیان فرمایا ہے جو جانور ہریالی بے اعتدالی سے کھاجاتے ہیں وہ بیمار بھی ہوجاتے ہیں دنیا کا یہی حال ہے یہاں اعتدال ہر حال میں ضروری ہے۔ اس اعتدال پر اشارہ ہے جسے ہریالی چرنے والے جانور کی مثال سے بیان فرمایا ہے جو جانور ہریالی بے اعتدالی سے کھاجاتے ہیں وہ بیمار بھی ہوجاتے ہیں دنیا کا یہی حال ہے یہاں اعتدال ہر حال میں ضروری ہے۔