كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ الإِمَامِ تَعْرِضُ لَهُ الحَاجَةُ بَعْدَ الإِقَامَةِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَاجِي رَجُلًا فِي جَانِبِ المَسْجِدِ، فَمَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ حَتَّى نَامَ القَوْمُ»
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: تکبیر کے بعد اگر امام کو کوئی ضرورت
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص سے مسجد کے ایک گوشے میں چپکے چپکے کان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر آپ نماز کے لیے جب تشریف لائے تو لوگ سو رہے تھے۔
تشریح :
سونے سے مراد اونگھنا ہے جیسا کہ ابن حبان اوراسحاق بن راہویہ نے روایت کیاہے کہ بعض لوگ اونگھنے لگے، چونکہ عشاءکی نماز کے وقت میں کافی گنجائش ہے اورباتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے آپ نے نماز کو مؤخر کردیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان شرعی سہولتوں کوبیان کرناہے جو روا رکھی گئی ہیں۔ آج جب کہ مصروفیات زندگی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اورہر ہر منٹ مصروفیات کا ہے حدیث نبوی “ الامام ضامن ” کے تحت امام کو بہرحال مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔
سونے سے مراد اونگھنا ہے جیسا کہ ابن حبان اوراسحاق بن راہویہ نے روایت کیاہے کہ بعض لوگ اونگھنے لگے، چونکہ عشاءکی نماز کے وقت میں کافی گنجائش ہے اورباتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے آپ نے نماز کو مؤخر کردیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان شرعی سہولتوں کوبیان کرناہے جو روا رکھی گئی ہیں۔ آج جب کہ مصروفیات زندگی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اورہر ہر منٹ مصروفیات کا ہے حدیث نبوی “ الامام ضامن ” کے تحت امام کو بہرحال مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔