كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ المَوْعِظَةِ سَاعَةً بَعْدَ سَاعَةٍ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: كُنَّا نَنْتَظِرُ عَبْدَ اللَّهِ، إِذْ جَاءَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، فَقُلْنَا: أَلاَ تَجْلِسُ؟ قَالَ: لاَ، وَلَكِنْ أَدْخُلُ فَأُخْرِجُ إِلَيْكُمْ صَاحِبَكُمْ وَإِلَّا جِئْتُ أَنَا فَجَلَسْتُ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِهِ، فَقَامَ [ص:88] عَلَيْنَا فَقَالَ: أَمَا إِنِّي أُخْبَرُ بِمَكَانِكُمْ، وَلَكِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنَ الخُرُوجِ إِلَيْكُمْ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الأَيَّامِ، كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا»
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
باب: ٹھہر ٹھہر کر فاصلے سے وعظ نصیحت کرنا
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہامجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہاہم سے اعمش نے بیان کیا، کہاکہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہاکہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کررہے تھے کہ یزید بن معاویہ ( ایک بزرگ تابعی ) آئے ۔ ہم نے کہا ، تشریف رکھئے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ، میں اندر جاؤںگا اور تمہارے ساتھ ( عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) کو باہر لاؤںگا۔ اگر وہ نہ آئے تو میں ہی تنہا آجاؤں گا اورتمہارے ساتھ بیٹھوں گا۔ پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور وہ یزید بن معاویہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے پھر ہمارے سامنے کھڑے ہوئے کہنے لگے میں جان گیا تھا کہ تم یہاں موجود ہو۔ پس میں جو نکلا تو اس وجہ سے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ مقررہ دنوں میں ہم کو وعظ فرمایا کرتے تھے۔ ( فاصلہ دے کر ) آپ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔
تشریح :
آدم تا ایں دم خدائے پاک کے وجود برحق کو ماننے والی جتنی قومیں گزرچکی ہیں یا موجود ہیں ان سب میں دعا کا تصور وتخیل وتعامل موجود ہے۔ موحد قوموں نے ہر قسم کی نیک دعا ؤں کامرکز اللہ پاک رب العالمین کی ذات واحد کو قرار دیااور مشرکین اقوام نے اس صحیح مرکز سے ہٹ کر اپنے دیوتا ؤں ، اولیاء ، پیروں، شہیدوں، قبروں ، بتوں کے ساتھ یہ معاملہ شروع کردیا۔ تاہم اس قسم کے تمام لوگوں کا دعا کے تصور پر ایمان رہا ہے اور اب بھی موجود ہے۔
اسلام میں دعاء کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے، پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں الدعاء مخ العبادۃ یعنی عبادت کا اصلی مغز دعاء ہی ہے۔ اس لئے اسلام میں جن جن کاموں کو عبادت کانام دیا گیا ہے ان سب کی بنیاد از اول تا آخر دعاؤں کا ایک بہترین گل دستہ ہے۔ روزہ ،حج کا بھی یہی حال ہے۔ زکوٰۃ میں ....دینے والے کے حق میں نیک دعا سکھلاکر بتلا یا گیاہے کہ اسلام کا اصل مدعا جملہ عبادات سے دعا ہے چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ الدعاء ھو العبادۃ ثم قرا وقال ربکم ادعونی استجب لکم ( رواہ احمد وغیرہ ) یعنی دعا ء عبادت ہے بلکہ ایک روایت کے مطابق دعاؤں میں وہ غضب کی قوت رکھی گئی ہے کہ ان سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ ( موصوف مترجم کا اشارہ شاید اس حدیث کی طرف ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر وقضاء سے سبقت لے جاسکتی ہے تو یہ دعا تھی لیکن اس کا وہ مطلب نہیں جو موصوف نے لیا ہے اس میں تو واضح طور پر یہ بتایا جارہا ہے کہ دعا میں بڑی تاثیر ہے جو کسی دوا میں بھی نہیں لیکن یہ تقدیر نہیں بدل سکتی گویا یوں کہئے کہ مومن کا آخری ہتھیار دعا ہے جو تریاق مجرب ہے اگر اس پر حاوی ہے تو صرف قدر وقضاء ( عبدالرشیدتونسوی )
اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تاکید فرمائی کہ فعلیکم عباد اللہ بالدعاء رواہ الترمذی یعنی اے اللہ کے بندو!بالضرور دعا کو اپنے لئے لازم کرلو۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا سمجھ لو وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہے اور فرمایا کہ جس کے لئے دعا بکثرت کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا سمجھ لو اس کے لئے رحمت الٰہی کے دروازے کھل گئے اور بھی بہت سی روایات اس قسم کی موجود ہیں۔ پس اہل ایمان کا فرض ہے کہ اللہ پاک سے ہر وقت دعا مانگنا اپنا عمل بنا لیں۔ قبولیت دعا کے لئے قرآن وسنت کی روشنی میں کچھ تفصیلات ہیں ، اس مختصر مقالہ میں ان کو بھی سر سری نظر سے ملاحظہ فرمالیجئے تاکہ آپ کی دعا بالضرور قبول ہوجائے۔
( 1 ) دعا کرتے وقت یہ سوچ لینا ضروری ہے کہ اس کا کھانا پینا اس کا لباس حلال مال سے ہے یا حرام سے ، اگر رزق حلال وصدق مقال ولباس طیب مہیا نہیں ہے تو دعا سے پہلے ان کو مہیا کرنے کی کوشش کرنی ضروری ہے۔
( 2 ) قبولیت دعا کے لئے یہ شرط بڑی اہم ہے کہ دعا کرتے وقت اللہ برحق پر یقین کامل ہو اور ساتھ ہی دل میں یہ عزم بالجزم ہوکہ جو وہ دعا کررہا ہے وہ ضرور قبول ہوگی رد نہیں کی جائے گی۔
( 3 ) قبولیت دعا کے لئے دعا کے مضمون پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ قطع رحمی کے لئے ظلم وزیادتی کے لئے یا قانون قدرت کے برعکس کوئی مطالبہ اللہ کے سامنے رکھ رہے ہیں تو ہر گز یہ گمان نہ کریں کہ اس قسم کی دعائیں بھی آپ کی قبول ہوں گی۔
( 4 ) دعا کرنے کے بعد فوراً ہی اس کی قبولیت آپ پر ظاہر ہوجائے، ایسا تصور بھی صحیح نہیں ہے ، بہت سی دعا ئیں فوراً اثر دکھا تی ہیں بہت سی کافی دیر کے بعد اثر پذیر ہوتی ہیں۔ بہت سی دعا بظاہر قبول نہیں ہوتیںمگر ان کی برکات سے ہم کسی آنے والی آفت سے بچ جاتے ہیں اور بہت سی دعا ئیں صرف آخرت کے لئے ذخیرہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ بہر حال دعا بشرائط بالا کسی حال میں بھی بیکار نہیں جاتیں۔
( 5 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب دعا میں بتلایا ہے کہ اللہ کے سامنے ہاتھوں کو ہتھیلیوں کی طرف سے پھیلاکر صدق دل سے سائل بن کر دعا مانگوفرمایا:”تمہارا رب کریم بہت ہی حیادارہے اس کو شرم آتی ہے کہ اپنے مخلص بندے کے ہاتھوں کو خالی واپس کردے، آخرمیں ہاتھوں کو چہرے پرمل لینا بھی آداب دعا سے ہے۔ ( آداب دعاسے ہے کہنے کی بجائے یوں کہا جائے کہ جائز ہے بغیر ملے اگر نیچے گرادیے جائیں تب بھی آداب دعا میں شامل ہے۔ عبد الرشیدتونسوی )
( 6 ) پیٹھ پیچھے اپنے بھائی مسلمان کے لئے دعا کر نا قبولیت کے لحاظ سے فوری اثر رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ فرشتے ساتھ میں آمین کہتے ہیں اور دعا کرنے والے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا تم کو بھی وہ چیز عطاکرے جو تم اپنے غائب بھائی کے لئے مانگ رہے ہو۔
( 7 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پانچ قسم کے آدمیوں کی دعا ضرور قبو ل ہوتی ہے۔ مظلوم کی دعا،حاجی کی دعا جب تک وہ واپس ہو ، مجاہد کی دعا یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پہنچے۔ مریض کی دعا یہاں تک کہ وہ تندرست ہو، پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کے لئے دعا ئے خیر جو قبولیت میں فوری اثر رکھتی ہے۔
( 8 ) ایک دوسری روایت کی بنا پر تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ والدین کا اپنی اولا دکے حق میں دعا کرنا، مظلوم کی دعا بعض روایت کی بنا پر روزہ دار کی دعا اورامام عادل کی دعا بھی فوری اثر دکھلاتی ہے۔ مظلوم کی دعا کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بارگاہ احدیت سے آواز آتی ہے کہ مجھ کو قسم ہے اپنے جلال کی اور عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگر چہ اس میں کچھ وقت لگے۔
( 9 ) کشادگی ،بے فکری فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال ہے، ورنہ شدائد ومصائب میں تو سب ہی دعا کرنے لگ جاتے ہیں اولاد کے حق میں بددعا کرنے کی ممانعت ہے اسی طرح اپنے لئے یا اپنے مال کے لئے بھی بددعا نہ کرنی چاہئے۔
( 10 ) دعا کرنے سے پہلے پھر اپنے دل کا جائزہ لیجئے کہ اس میں سستی غفلت کا کوئی داغ دھبہ تونہیں ہے۔ دعا وہی قبول ہوتی ہے جو دل کی گہرائی سے صدق نیت سے حضور قلب ویقین کا مل کے ساتھ کی جائے۔
یہ چند باتیں بطور ضروری گذارشات کے ناظرین کے سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ امید بلکہ یقین کامل ہے کہ بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے بھائی بہن سب اپنے اس حقیر ترین خادم کو بھی اپنی دعا میں شریک رکھیں گے اور اگر کہیں بھول چوک نظر آئے تو اس سے مخلصانہ طور پر مطلع کریں گے، یا اپنے دامن عفو میں چھپا لیں گے۔
آدم تا ایں دم خدائے پاک کے وجود برحق کو ماننے والی جتنی قومیں گزرچکی ہیں یا موجود ہیں ان سب میں دعا کا تصور وتخیل وتعامل موجود ہے۔ موحد قوموں نے ہر قسم کی نیک دعا ؤں کامرکز اللہ پاک رب العالمین کی ذات واحد کو قرار دیااور مشرکین اقوام نے اس صحیح مرکز سے ہٹ کر اپنے دیوتا ؤں ، اولیاء ، پیروں، شہیدوں، قبروں ، بتوں کے ساتھ یہ معاملہ شروع کردیا۔ تاہم اس قسم کے تمام لوگوں کا دعا کے تصور پر ایمان رہا ہے اور اب بھی موجود ہے۔
اسلام میں دعاء کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے، پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں الدعاء مخ العبادۃ یعنی عبادت کا اصلی مغز دعاء ہی ہے۔ اس لئے اسلام میں جن جن کاموں کو عبادت کانام دیا گیا ہے ان سب کی بنیاد از اول تا آخر دعاؤں کا ایک بہترین گل دستہ ہے۔ روزہ ،حج کا بھی یہی حال ہے۔ زکوٰۃ میں ....دینے والے کے حق میں نیک دعا سکھلاکر بتلا یا گیاہے کہ اسلام کا اصل مدعا جملہ عبادات سے دعا ہے چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ الدعاء ھو العبادۃ ثم قرا وقال ربکم ادعونی استجب لکم ( رواہ احمد وغیرہ ) یعنی دعا ء عبادت ہے بلکہ ایک روایت کے مطابق دعاؤں میں وہ غضب کی قوت رکھی گئی ہے کہ ان سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ ( موصوف مترجم کا اشارہ شاید اس حدیث کی طرف ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر وقضاء سے سبقت لے جاسکتی ہے تو یہ دعا تھی لیکن اس کا وہ مطلب نہیں جو موصوف نے لیا ہے اس میں تو واضح طور پر یہ بتایا جارہا ہے کہ دعا میں بڑی تاثیر ہے جو کسی دوا میں بھی نہیں لیکن یہ تقدیر نہیں بدل سکتی گویا یوں کہئے کہ مومن کا آخری ہتھیار دعا ہے جو تریاق مجرب ہے اگر اس پر حاوی ہے تو صرف قدر وقضاء ( عبدالرشیدتونسوی )
اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تاکید فرمائی کہ فعلیکم عباد اللہ بالدعاء رواہ الترمذی یعنی اے اللہ کے بندو!بالضرور دعا کو اپنے لئے لازم کرلو۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا سمجھ لو وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہے اور فرمایا کہ جس کے لئے دعا بکثرت کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا سمجھ لو اس کے لئے رحمت الٰہی کے دروازے کھل گئے اور بھی بہت سی روایات اس قسم کی موجود ہیں۔ پس اہل ایمان کا فرض ہے کہ اللہ پاک سے ہر وقت دعا مانگنا اپنا عمل بنا لیں۔ قبولیت دعا کے لئے قرآن وسنت کی روشنی میں کچھ تفصیلات ہیں ، اس مختصر مقالہ میں ان کو بھی سر سری نظر سے ملاحظہ فرمالیجئے تاکہ آپ کی دعا بالضرور قبول ہوجائے۔
( 1 ) دعا کرتے وقت یہ سوچ لینا ضروری ہے کہ اس کا کھانا پینا اس کا لباس حلال مال سے ہے یا حرام سے ، اگر رزق حلال وصدق مقال ولباس طیب مہیا نہیں ہے تو دعا سے پہلے ان کو مہیا کرنے کی کوشش کرنی ضروری ہے۔
( 2 ) قبولیت دعا کے لئے یہ شرط بڑی اہم ہے کہ دعا کرتے وقت اللہ برحق پر یقین کامل ہو اور ساتھ ہی دل میں یہ عزم بالجزم ہوکہ جو وہ دعا کررہا ہے وہ ضرور قبول ہوگی رد نہیں کی جائے گی۔
( 3 ) قبولیت دعا کے لئے دعا کے مضمون پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ قطع رحمی کے لئے ظلم وزیادتی کے لئے یا قانون قدرت کے برعکس کوئی مطالبہ اللہ کے سامنے رکھ رہے ہیں تو ہر گز یہ گمان نہ کریں کہ اس قسم کی دعائیں بھی آپ کی قبول ہوں گی۔
( 4 ) دعا کرنے کے بعد فوراً ہی اس کی قبولیت آپ پر ظاہر ہوجائے، ایسا تصور بھی صحیح نہیں ہے ، بہت سی دعا ئیں فوراً اثر دکھا تی ہیں بہت سی کافی دیر کے بعد اثر پذیر ہوتی ہیں۔ بہت سی دعا بظاہر قبول نہیں ہوتیںمگر ان کی برکات سے ہم کسی آنے والی آفت سے بچ جاتے ہیں اور بہت سی دعا ئیں صرف آخرت کے لئے ذخیرہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ بہر حال دعا بشرائط بالا کسی حال میں بھی بیکار نہیں جاتیں۔
( 5 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب دعا میں بتلایا ہے کہ اللہ کے سامنے ہاتھوں کو ہتھیلیوں کی طرف سے پھیلاکر صدق دل سے سائل بن کر دعا مانگوفرمایا:”تمہارا رب کریم بہت ہی حیادارہے اس کو شرم آتی ہے کہ اپنے مخلص بندے کے ہاتھوں کو خالی واپس کردے، آخرمیں ہاتھوں کو چہرے پرمل لینا بھی آداب دعا سے ہے۔ ( آداب دعاسے ہے کہنے کی بجائے یوں کہا جائے کہ جائز ہے بغیر ملے اگر نیچے گرادیے جائیں تب بھی آداب دعا میں شامل ہے۔ عبد الرشیدتونسوی )
( 6 ) پیٹھ پیچھے اپنے بھائی مسلمان کے لئے دعا کر نا قبولیت کے لحاظ سے فوری اثر رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ فرشتے ساتھ میں آمین کہتے ہیں اور دعا کرنے والے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا تم کو بھی وہ چیز عطاکرے جو تم اپنے غائب بھائی کے لئے مانگ رہے ہو۔
( 7 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پانچ قسم کے آدمیوں کی دعا ضرور قبو ل ہوتی ہے۔ مظلوم کی دعا،حاجی کی دعا جب تک وہ واپس ہو ، مجاہد کی دعا یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پہنچے۔ مریض کی دعا یہاں تک کہ وہ تندرست ہو، پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کے لئے دعا ئے خیر جو قبولیت میں فوری اثر رکھتی ہے۔
( 8 ) ایک دوسری روایت کی بنا پر تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ والدین کا اپنی اولا دکے حق میں دعا کرنا، مظلوم کی دعا بعض روایت کی بنا پر روزہ دار کی دعا اورامام عادل کی دعا بھی فوری اثر دکھلاتی ہے۔ مظلوم کی دعا کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بارگاہ احدیت سے آواز آتی ہے کہ مجھ کو قسم ہے اپنے جلال کی اور عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگر چہ اس میں کچھ وقت لگے۔
( 9 ) کشادگی ،بے فکری فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال ہے، ورنہ شدائد ومصائب میں تو سب ہی دعا کرنے لگ جاتے ہیں اولاد کے حق میں بددعا کرنے کی ممانعت ہے اسی طرح اپنے لئے یا اپنے مال کے لئے بھی بددعا نہ کرنی چاہئے۔
( 10 ) دعا کرنے سے پہلے پھر اپنے دل کا جائزہ لیجئے کہ اس میں سستی غفلت کا کوئی داغ دھبہ تونہیں ہے۔ دعا وہی قبول ہوتی ہے جو دل کی گہرائی سے صدق نیت سے حضور قلب ویقین کا مل کے ساتھ کی جائے۔
یہ چند باتیں بطور ضروری گذارشات کے ناظرین کے سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ امید بلکہ یقین کامل ہے کہ بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے بھائی بہن سب اپنے اس حقیر ترین خادم کو بھی اپنی دعا میں شریک رکھیں گے اور اگر کہیں بھول چوک نظر آئے تو اس سے مخلصانہ طور پر مطلع کریں گے، یا اپنے دامن عفو میں چھپا لیں گے۔