‌صحيح البخاري - حدیث 6407

كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لاَ يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ وَالمَيِّتِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6407

کتاب: دعاؤں کے بیان میں باب: اللہ پاک تبارک وتعالیٰ کے ذکر کی فضیلت کا بیان ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبد اللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یا د کر تا ہے اور اس کی مثال جواپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔
تشریح : اللہ کی یاد گویا نمودزندگی ہے اور اللہ کو بھول جانا گویا ظلمت موت ہے۔ بعض نے کہا اللہ کو یاد نہ کرنے والوں سے کچھ نفع نقصان نہیں پہنچتا۔ قرآن مجید میں اللہ کا ذکر کرنے سے متعلق بہت سی آیات ہیں ایک جگہ فرمایا۔ یاایھا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیر ا۔ ( الاحزاب :41 ) اے ایمان والو!اللہ کو بکثرت یا د کیاکرو۔ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فرمایا تھا کہ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔ کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا یہ اللہ والوں کی شان ہے۔ نماز،روزہ ، حج ،زکوٰۃ،کلام ، ذکر ،اذکار سب کا خلاصہ یہی ذکر اللہ ہے جس کے کلمات تسبیح وتحمید وتکبیر وتہلیل بہترین ذرائع ہیں۔ تلاوت قرآن مجیدومطالعہ حدیث نبوی وکثرت درود شریف بھی سب ذکر اللہ ہی کی صورتیں ہیں۔ سب سے بڑا ذکر یہ ہے کہ جملہ اوامر اورنواہی کے لئے اللہ کو یاد رکھے۔ اوامر کو بجالائے نواہی سے پرہیز کرلے۔ ذاکرین کی مجلس کا یہ درجہ ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے علاہ آنے والا شخص گوان میں شریک نہ ہو، کسی کام یا مطلب سے ان کے پاس آکر بیٹھ گیا ہو، تو ان کے ذکر کی برکت سے وہ بھی بخش دیا گیا۔ اس حدیث سے اہل اللہ اور ذاکرین اللہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی گو کسی ضرورت سے گیا ہو ان کے فیض اور برکت سے محروم نہیں رہتا۔ اب افسوس ہے ان لوگوں پر جو پیغمبر رحمت کے ساتھ بیٹھنے والوں اور سفر وحضر میں آ پ کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام کو بہشت سے محروم اور بدنصیب جانتے ہیں۔ یہ کم بخت خود ہی محروم ہوں گے۔ ایک بار کعب اسلمی خادم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ، آپ نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے؟ انہوں نے کہا جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اور کچھ ؟ انہوں نے کہا بس یہی۔ آپ نے فرمایا اچھا کثرت سجود سے میری مدد کر۔ ( صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب کثرۃ السجود ) اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو یہ درجہ رفاقت عطاکرے۔ اللہ کی یاد گویا نمودزندگی ہے اور اللہ کو بھول جانا گویا ظلمت موت ہے۔ بعض نے کہا اللہ کو یاد نہ کرنے والوں سے کچھ نفع نقصان نہیں پہنچتا۔ قرآن مجید میں اللہ کا ذکر کرنے سے متعلق بہت سی آیات ہیں ایک جگہ فرمایا۔ یاایھا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیر ا۔ ( الاحزاب :41 ) اے ایمان والو!اللہ کو بکثرت یا د کیاکرو۔ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فرمایا تھا کہ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔ کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا یہ اللہ والوں کی شان ہے۔ نماز،روزہ ، حج ،زکوٰۃ،کلام ، ذکر ،اذکار سب کا خلاصہ یہی ذکر اللہ ہے جس کے کلمات تسبیح وتحمید وتکبیر وتہلیل بہترین ذرائع ہیں۔ تلاوت قرآن مجیدومطالعہ حدیث نبوی وکثرت درود شریف بھی سب ذکر اللہ ہی کی صورتیں ہیں۔ سب سے بڑا ذکر یہ ہے کہ جملہ اوامر اورنواہی کے لئے اللہ کو یاد رکھے۔ اوامر کو بجالائے نواہی سے پرہیز کرلے۔ ذاکرین کی مجلس کا یہ درجہ ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے علاہ آنے والا شخص گوان میں شریک نہ ہو، کسی کام یا مطلب سے ان کے پاس آکر بیٹھ گیا ہو، تو ان کے ذکر کی برکت سے وہ بھی بخش دیا گیا۔ اس حدیث سے اہل اللہ اور ذاکرین اللہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی گو کسی ضرورت سے گیا ہو ان کے فیض اور برکت سے محروم نہیں رہتا۔ اب افسوس ہے ان لوگوں پر جو پیغمبر رحمت کے ساتھ بیٹھنے والوں اور سفر وحضر میں آ پ کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام کو بہشت سے محروم اور بدنصیب جانتے ہیں۔ یہ کم بخت خود ہی محروم ہوں گے۔ ایک بار کعب اسلمی خادم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ، آپ نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے؟ انہوں نے کہا جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اور کچھ ؟ انہوں نے کہا بس یہی۔ آپ نے فرمایا اچھا کثرت سجود سے میری مدد کر۔ ( صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب کثرۃ السجود ) اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو یہ درجہ رفاقت عطاکرے۔