‌صحيح البخاري - حدیث 6398

كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ» صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: «رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي [ص:85] وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي كُلِّهِ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ، وَعَمْدِي وَجَهْلِي وَهَزْلِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ المُقَدِّمُ وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ» وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، وَحَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6398

کتاب: دعاؤں کے بیان میں باب: نبی کریم ﷺ کا یوں دعا کرنا کہ ” اے اللہ ! میرے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دے ہم سے محمد بن بشار نے بیا ن کیا ، کہا ہم سے عبد الملک بن صباح نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ، ان سے ابو اسحاق نے، ان سے ابن ابی موسیٰ نے، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمیہ دعا کرتے تھے ” میرے رب! میری خطا، میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حدسے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر، میری خطاؤں میں ، میرے بالا رادہ اور بلا ارادہ کاموں میں اور میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں اور یہ سب میری ہی طرف سے ہیں ۔ اے اللہ ! میری مغفرت کر ان کاموں میں جو میں کرچکاہوں اورانہیں جو کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا اور جنہیںمیں نے ظاہر کیا ہے، تو سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے “ اور عبید اللہ بن معاذ ( جو امام بخاری کے شیخ ہیں ) نے بیان کیاکہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابو اسحاق نے، ان سے ابو بردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
تشریح : دعا کے آخر میں لفظ انک علی کل شی قدیر فرمانا اس چیز کا اظہار ہے کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہے کرسکتاہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے یہی استغناء الٰہی تو وہ چیز ہے جس سے بڑے بڑے پیغمبر اورمقرب بندے بھی تھراتے ہیں اور رات دن بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے قصوروں کا اقراراور اعتراف کرتے رہتے ہیں اگر ذرا بھی انانیت کسی کے دل میں آئی تو پھر کہیں ٹھکانا نہ رہا۔ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ پاک پروردگار ایسا مستغنی اور بے پرواہ ہے کہ اگر چاہے تو ہر روز حضرت ابراہیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح لاکھوں آدمیوں کو پیدا کردے اور اگر چاہے تو دم بھر میں جتنے مقرب بندے ہیں ان سب کو راندئہ درگاہ بنادے۔ جل جلالہ۔ یہاں مشیت کا ذکر ہورہا ہے ،مشیت اور چیز ہے اورقانون اورچیز ہے۔ قوانین الٰہی کے بارے میں صاف ارشاد ہے۔ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاولن تجد لسنۃاللہ تحویلا۔ ( فاطر:43 ) صدق اللہ تبارک وتعالیٰ۔ دعا کے آخر میں لفظ انک علی کل شی قدیر فرمانا اس چیز کا اظہار ہے کہ اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے وہ جو چاہے کرسکتاہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے یہی استغناء الٰہی تو وہ چیز ہے جس سے بڑے بڑے پیغمبر اورمقرب بندے بھی تھراتے ہیں اور رات دن بڑی عاجزی کے ساتھ اپنے قصوروں کا اقراراور اعتراف کرتے رہتے ہیں اگر ذرا بھی انانیت کسی کے دل میں آئی تو پھر کہیں ٹھکانا نہ رہا۔ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مکاتیب میں فرماتے ہیں وہ پاک پروردگار ایسا مستغنی اور بے پرواہ ہے کہ اگر چاہے تو ہر روز حضرت ابراہیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح لاکھوں آدمیوں کو پیدا کردے اور اگر چاہے تو دم بھر میں جتنے مقرب بندے ہیں ان سب کو راندئہ درگاہ بنادے۔ جل جلالہ۔ یہاں مشیت کا ذکر ہورہا ہے ،مشیت اور چیز ہے اورقانون اورچیز ہے۔ قوانین الٰہی کے بارے میں صاف ارشاد ہے۔ ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاولن تجد لسنۃاللہ تحویلا۔ ( فاطر:43 ) صدق اللہ تبارک وتعالیٰ۔