كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ: هَلْ يَخْرُجُ مِنَ المَسْجِدِ لِعِلَّةٍ؟ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، وَعُدِّلَتِ الصُّفُوفُ، حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ، انْتَظَرْنَا أَنْ يُكَبِّرَ، انْصَرَفَ، قَالَ: «عَلَى مَكَانِكُمْ» فَمَكَثْنَا عَلَى هَيْئَتِنَا، حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً، وَقَدِ اغْتَسَلَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: کیا مسجد سے کسی ضرورت کی وجہ سے
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، وہ صالح بن کیسان سے، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک دن حجرے سے ) باہر تشریف لائے، اقامت کہی جا چکی تھی اور صفیں برابر کی جا چکی تھیں۔ آپ جب مصلے پر کھڑے ہوئے تو ہم انتظار کر رہے تھے کہ اب آپ تکبیر کہتے ہیں۔ لیکن آپ واپس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ ہم اسی حالت میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ دوبارہ تشریف لائے، تو سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ نے غسل کیا تھا۔
تشریح :
آپ حالت جنابت میں تھے مگر یادنہ رہنے کی وجہ سے تشریف لے آئے۔ بعدمیں معلوم ہوگیا توواپس تشریف لے گئے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا کہ کوئی ایسی ہی سخت ضرورت پیش آجائے، تو اذان وتکبیر کے بعد بھی آدمی مسجد سے باہر نکل سکتاہے۔ جس حدیث میں ممانعت آئی ہے وہاں محض بلاوجہ نفسانی خواہش کے باہر نکلنا مراد ہے۔ ممانعت والی حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اورمسنداحمد میں بھی ہے۔
ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:والحدیثان یدلان علی تحریم الخروج من المسجد بعد سماع الاذان لغیرالوضوءوقضاءالحاجۃ وماتدعوا الضرورۃ الیہ حتی یصلی فیہ تلک الصلوٰۃ لان ذلک المسجد قد تعین لتلک الصلوٰۃ۔ ( نیل الاوطار ) یعنی مسجد سے اذان سننے کے بعد نکلنا حرام ہے۔ مگروضو یاقضائے حاجت یا اورکوئی ضروری کام ہو تواجازت ہے ورنہ جس مسجد میں رہتے ہوئے اذان سن لی اب اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی لازم ہے کیونکہ اس نماز کے لیے وہی مسجد متعین ہوچکی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ احکام شریعت وطریقہ عبادت میں نسیان ہوسکتاہے تاکہ وہ وحی آسمانی کے مطابق اس نسیان کا ازالہ کرسکیں۔
آپ حالت جنابت میں تھے مگر یادنہ رہنے کی وجہ سے تشریف لے آئے۔ بعدمیں معلوم ہوگیا توواپس تشریف لے گئے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا کہ کوئی ایسی ہی سخت ضرورت پیش آجائے، تو اذان وتکبیر کے بعد بھی آدمی مسجد سے باہر نکل سکتاہے۔ جس حدیث میں ممانعت آئی ہے وہاں محض بلاوجہ نفسانی خواہش کے باہر نکلنا مراد ہے۔ ممانعت والی حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اورمسنداحمد میں بھی ہے۔
ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:والحدیثان یدلان علی تحریم الخروج من المسجد بعد سماع الاذان لغیرالوضوءوقضاءالحاجۃ وماتدعوا الضرورۃ الیہ حتی یصلی فیہ تلک الصلوٰۃ لان ذلک المسجد قد تعین لتلک الصلوٰۃ۔ ( نیل الاوطار ) یعنی مسجد سے اذان سننے کے بعد نکلنا حرام ہے۔ مگروضو یاقضائے حاجت یا اورکوئی ضروری کام ہو تواجازت ہے ورنہ جس مسجد میں رہتے ہوئے اذان سن لی اب اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی لازم ہے کیونکہ اس نماز کے لیے وہی مسجد متعین ہوچکی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ احکام شریعت وطریقہ عبادت میں نسیان ہوسکتاہے تاکہ وہ وحی آسمانی کے مطابق اس نسیان کا ازالہ کرسکیں۔