كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ الدُّعَاءِ لِلصِّبْيَانِ بِالْبَرَكَةِ، وَمَسْحِ رُءُوسِهِمْ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ [ص:77]، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَعْلَبَةَ بْنِ صُعَيْرٍ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَسَحَ عَنْهُ: أَنَّهُ رَأَى سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
باب: بچوں کے لئے برکت کی دعا کرنا اور ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا ۔
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبردی، انہیں زہری نے ، کہا کہ مجھے عبد اللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ نے خبردی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ یا منہ پر ہاتھ پھیرا تھا۔ انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو ایک رکعت وتر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
تشریح :
وتر کے معنی تنہا اکیلا طاق کے ہیں ا س کی ضد شفع یعنی جوڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو کبھی ساتھ رکعات کبھی پانچ کبھی تین کبھی ایک رکعت پڑھا ہے۔ حضرت ابو ایوب روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ الوتر حق علی کل مسلم فمن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتربثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل رواہ ابوداؤد والنسائی وابن ماجہ یعنی نماز وتر ہر مسلمان کے اوپر حق اور ثابت ہے پس جو چاہے وتر سات رکعات پڑھے جو چاہے پانچ رکعت پرھے جو چاہے تین رکعت پڑھے اورجو چاہے ایک رکعت پڑھے۔ ابن عمر کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الوتر رکعۃ من آخر اللیل رواہ مسلم یعنی نماز وتر آخری رات میں ہے جو ایک رکعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں درمیان میں نہیں بلکہ صرف آخری رکعت میں قعدہ فرماتے تھے ( رواہ مسلم ) پس ایک رکعت وتر جائز درست بلکہ سنت نبوی ہے جو لوگ ایک رکعت وتر اداکریں ان پر اعتراض کرنے والے خود غلطی پر ہیں ، یوں تین پانچ سات تک پڑھ سکتے ہیں۔ حدیث اور باب میں مطابقت اس سے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ کے سر پر ازراہ شفقت ودعا دست شفقت پھیراتھا۔
وتر کے معنی تنہا اکیلا طاق کے ہیں ا س کی ضد شفع یعنی جوڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو کبھی ساتھ رکعات کبھی پانچ کبھی تین کبھی ایک رکعت پڑھا ہے۔ حضرت ابو ایوب روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ الوتر حق علی کل مسلم فمن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتربثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل رواہ ابوداؤد والنسائی وابن ماجہ یعنی نماز وتر ہر مسلمان کے اوپر حق اور ثابت ہے پس جو چاہے وتر سات رکعات پڑھے جو چاہے پانچ رکعت پرھے جو چاہے تین رکعت پڑھے اورجو چاہے ایک رکعت پڑھے۔ ابن عمر کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الوتر رکعۃ من آخر اللیل رواہ مسلم یعنی نماز وتر آخری رات میں ہے جو ایک رکعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں درمیان میں نہیں بلکہ صرف آخری رکعت میں قعدہ فرماتے تھے ( رواہ مسلم ) پس ایک رکعت وتر جائز درست بلکہ سنت نبوی ہے جو لوگ ایک رکعت وتر اداکریں ان پر اعتراض کرنے والے خود غلطی پر ہیں ، یوں تین پانچ سات تک پڑھ سکتے ہیں۔ حدیث اور باب میں مطابقت اس سے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ کے سر پر ازراہ شفقت ودعا دست شفقت پھیراتھا۔