كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ السَّجْعِ فِي الدُّعَاءِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ أَبُو حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ المُقْرِئُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الخِرِّيتِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «حَدِّثِ النَّاسَ كُلَّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ أَبَيْتَ فَمَرَّتَيْنِ، فَإِنْ أَكْثَرْتَ فَثَلاَثَ مِرَارٍ، وَلاَ تُمِلَّ النَّاسَ هَذَا القُرْآنَ، وَلاَ أُلْفِيَنَّكَ تَأْتِي القَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ، فَتَقُصُّ عَلَيْهِمْ، فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ فَتُمِلُّهُمْ، وَلَكِنْ أَنْصِتْ، فَإِذَا أَمَرُوكَ فَحَدِّثْهُمْ وَهُمْ يَشْتَهُونَهُ، فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ»، فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ يَعْنِي لاَ يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ الِاجْتِنَابَ
کتاب: دعاؤں کے بیان میں
باب: دعا میں سجع یعنی قافیے لگانا مکروہ ہے
ہم سے یحیٰ بن محمد بن سکن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حبان بن ہلال ابو حبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون مقر ی نے بیان ، کہا ہم سے زبیر بن خر یت نے بیان کیا ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ لوگوں کو وعظ ہفتہ میں صرف ایک دن جمعہ کو کیا کر، اگر تم اس پر تیار نہ ہوتو دومرتبہ اگر تم زیادہ ہی کرناچاہتے ہوتو پس تین دن اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتانہ دینا ، ایسا نہ ہوکہ تم کچھ لوگوں کے پا س پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم پہنچتے ہی ان سے اپنی بات ( بشکل وعظ ) بیان کرنے لگو اور ان کی آپس کی گفتگو کو کاٹ دو کہ اس طرح وہ اکتا جائیں ، بلکہ ( ایسے مقام پر ) تمہیں خاموش رہنا چاہئے ۔ جب وہ تم سے کہیں تو پھر تم انہیںاپنی باتیں سناؤ۔ اس طرح کہ وہ بھی اس تقریر کے خواہش مند ہوں اور دعا میں قافیہ بند ی سے پرہیز کرتے رہنا ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔
تشریح :
یعنی ہمیشہ اس سے پرہیز کرتے تھے۔ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی سادی دعا کیا کرتے بلاتکلف اور مختصر۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا اور طہارت میں مبالغہ کریںگے حدسے بڑھ جائیں گے، مومن کو چاہئے کہ سنت کی پیروی کرے اور مقفی ٰ اور مسجع دعاؤں سے جو پچھلے لوگوں نے نکالی ہیں پرہیز رکھے۔ جو دعا ئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ سندصحیح منقول ہیں وہ دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد کے لئے کافی ہیں اب جو بعض دعائیں ماثور مسجع ہیں جیسے اللہم منزل الکتاب مجری السحاب ھازم الاحزاب یاصدق اللہ وعدہ واعز جندہ ونصرعبدہ وھزم الاحزاب وحدہ یا اعوذبک من عین لا تدمع ومن نفسی لا تشبع ومن قلبی کایخشع “وہ مستثنیٰ ہوںگی کیونکہ یہ بلا قصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہیں اگر بلا قصد سجع ہوجائے تو قباحت نہیں ہے۔ عمداً بطور تکلف ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس میں ریا نمود بھی ممکن ہے جو شرک خفی ہے الا ماشاء اللہ۔
یعنی ہمیشہ اس سے پرہیز کرتے تھے۔ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی سادی دعا کیا کرتے بلاتکلف اور مختصر۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا اور طہارت میں مبالغہ کریںگے حدسے بڑھ جائیں گے، مومن کو چاہئے کہ سنت کی پیروی کرے اور مقفی ٰ اور مسجع دعاؤں سے جو پچھلے لوگوں نے نکالی ہیں پرہیز رکھے۔ جو دعا ئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ سندصحیح منقول ہیں وہ دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد کے لئے کافی ہیں اب جو بعض دعائیں ماثور مسجع ہیں جیسے اللہم منزل الکتاب مجری السحاب ھازم الاحزاب یاصدق اللہ وعدہ واعز جندہ ونصرعبدہ وھزم الاحزاب وحدہ یا اعوذبک من عین لا تدمع ومن نفسی لا تشبع ومن قلبی کایخشع “وہ مستثنیٰ ہوںگی کیونکہ یہ بلا قصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہیں اگر بلا قصد سجع ہوجائے تو قباحت نہیں ہے۔ عمداً بطور تکلف ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس میں ریا نمود بھی ممکن ہے جو شرک خفی ہے الا ماشاء اللہ۔