‌صحيح البخاري - حدیث 6326

كِتَابُ الدَّعَوَاتِ بَابُ الدُّعَاءِ فِي الصَّلاَةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ، عَنْ أَبِي الخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلاَتِي، قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا، وَلاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي، إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيمُ وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الخَيْرِ، إِنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6326

کتاب: دعاؤں کے بیان میں باب: نماز میں کون سی دعاء پڑھے؟ ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہاہم کو لیث بن سعد نے خبردی، کہاکہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے ابو الخیر مرثدبن عبد اللہ نے ، ان سے عبد اللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ عنہما نے اور ان سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے ایسی دعا سکھا دیجئے جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کہا کر ” اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کوتیرے سوا کوئی معاف نہیں کرتا پس میری مغفرت کر، ایسی مغفرت جو تیرے پاس سے ہو اور مجھ پر رحم کر بلاشبہ تو بڑا مغفرت کرنے ولا ، بڑا رحم کرنے والاہے۔ “ اور عمروبن حارث نے بھی اس حدیث کو یزید سے، انہوں نے ابوالخیر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آخرتک۔
تشریح : حضرت عمر وبن حارث کی روایت کو خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التوحید میں وصل کیا ہے قال ابطرس فی حدیث ابی بکر دلالۃ علی رد قولہ من زعم انہ لایستحق اسم الایمان Êلا من لاخطبئۃ لہ الا ذنب لان الصدیق من اکبر اھل الایمان وقد علمہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا الخ وقال الکرمانی ھذا الدعاء من الجوامع لان فیہ الاعتراف بغایۃ التقصیر وطلب غایۃ الانعام فا لمغفرۃ ستر الذنوب ونحوھا والرحمۃ ایصال الخیرات ففی الاول طلب الزحزحۃ عن النار وفی الثانی طلب ادخال الجنۃ وھذا ھو الفوز العظیم۔ ( فتح الباری ) یعنی حضرت ابوبکر والی حدیث میں اس شخص کے قول کی تردید ہے جو کہتا ہے کہ لفظ ایمان دار اسی پر بو لا جاسکتاہے مطلقا ً گناہوں سے پاک وصاف ہو حا لا نکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کو ن مومن ہو گا اس کے باوجود آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعا سکھلائی جو یہاں مذکور ہے جس میں اپنے نفس پر مظالم یعنی گناہوں کا ذکر ہے۔ کرمانی نے کہا کہ اس دعا میں غایت تقصیر کے اعتراف کی تعلیم ہے اور غایت انعام کی طلب ہے کیونکہ مغفرت گناہوں کا چھپانا ہے اور رحمت سے مراد نیکیوں کاایصال ہے پس اول میں دوزخ سے بچنا اوردوسری میں جنت میں داخلہ اور یہی ایک بڑی مراد ہے۔ اللہ ہر مسلمان کی یہ مراد پوری کرے۔ آمین۔ حضرت عمر وبن حارث کی روایت کو خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التوحید میں وصل کیا ہے قال ابطرس فی حدیث ابی بکر دلالۃ علی رد قولہ من زعم انہ لایستحق اسم الایمان Êلا من لاخطبئۃ لہ الا ذنب لان الصدیق من اکبر اھل الایمان وقد علمہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا الخ وقال الکرمانی ھذا الدعاء من الجوامع لان فیہ الاعتراف بغایۃ التقصیر وطلب غایۃ الانعام فا لمغفرۃ ستر الذنوب ونحوھا والرحمۃ ایصال الخیرات ففی الاول طلب الزحزحۃ عن النار وفی الثانی طلب ادخال الجنۃ وھذا ھو الفوز العظیم۔ ( فتح الباری ) یعنی حضرت ابوبکر والی حدیث میں اس شخص کے قول کی تردید ہے جو کہتا ہے کہ لفظ ایمان دار اسی پر بو لا جاسکتاہے مطلقا ً گناہوں سے پاک وصاف ہو حا لا نکہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کو ن مومن ہو گا اس کے باوجود آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعا سکھلائی جو یہاں مذکور ہے جس میں اپنے نفس پر مظالم یعنی گناہوں کا ذکر ہے۔ کرمانی نے کہا کہ اس دعا میں غایت تقصیر کے اعتراف کی تعلیم ہے اور غایت انعام کی طلب ہے کیونکہ مغفرت گناہوں کا چھپانا ہے اور رحمت سے مراد نیکیوں کاایصال ہے پس اول میں دوزخ سے بچنا اوردوسری میں جنت میں داخلہ اور یہی ایک بڑی مراد ہے۔ اللہ ہر مسلمان کی یہ مراد پوری کرے۔ آمین۔