كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ مَا جَاءَ فِي البِنَاءِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: «وَاللَّهِ مَا وَضَعْتُ لَبِنَةً عَلَى لَبِنَةٍ، وَلاَ غَرَسْتُ نَخْلَةً، مُنْذُ قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» قَالَ سُفْيَانُ: فَذَكَرْتُهُ لِبَعْضِ أَهْلِهِ، قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ بَنَى. قَالَ سُفْيَانُ: قُلْتُ: فَلَعَلَّهُ قَالَ قَبْلَ أَنْ يَبْنِيَ
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
باب: عمارت بنانا کیسا ہے
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہاہم سے ابو سفیان ثوری نے، ان سے عمر وبن نشارنے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نہ میں نے کوئی اینٹ کسی اےنٹ پر رکھی اور نہ کوئی باغ لگایا ۔ سفیان نے بیان کیا کہ جب میں نے اس کا ذکر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بعض گھرانوں کے سامنے کیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم انہوں نے گھر بنایا تھا ۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے کہاپھر یہ بات ابن عمر رضی اللہ عنہما نے گھر بنانے سے پہلے کہی ہوگی۔
تشریح :
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ تطبیق بالکل مناسب ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ بات گھر بنا نے سے پہلے کی فرمودہ ہے بعد میں انہوں نے گھر بنایا جیسا کہ خود ان کے گھر والوں کا بیان ہے۔ ضرورت سے زیادہ مکان بنانا وبال جان ہے جیسا کہ آج کل لوگوں نے عمارات مشید ہ بنابنا کرکھڑی کردی ہیں۔ باغ لگا نا افادہ کے لئے بہتر ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ تطبیق بالکل مناسب ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ بات گھر بنا نے سے پہلے کی فرمودہ ہے بعد میں انہوں نے گھر بنایا جیسا کہ خود ان کے گھر والوں کا بیان ہے۔ ضرورت سے زیادہ مکان بنانا وبال جان ہے جیسا کہ آج کل لوگوں نے عمارات مشید ہ بنابنا کرکھڑی کردی ہیں۔ باغ لگا نا افادہ کے لئے بہتر ہے۔