كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ إِذَا كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثَةٍ فَلاَ بَأْسَ بِالْمُسَارَّةِ وَالمُنَاجَاةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قِسْمَةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي مَلَإٍ فَسَارَرْتُهُ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ ثُمَّ قَالَ: «رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى، أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ»
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
باب: جب تین سے زیادہ آدمی ہوں تو کانا پھوسی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
ہم سے عبدان نے بیان کیا ، ان سے ابو حمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کچھ مال تقسیم فرمایا اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہ تھی میں نے کہاکہ ہاں! اللہ کی قسم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤںگا ۔ چنانچہ میں گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں چپکے سے یہ بات کہی تو آ پ غصہ ہوگئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہوگیاپھر آپ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچا ئی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا ( پس میں بھی صبر کروںگا )
تشریح :
باب کا مطلب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طرزعمل سے نکلا کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی جب دوسرے کئی لوگ موجو د تھے۔ یہ گستاخ منافق تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت تکلیفیں دی گئیں قارون نے ایک فاحشہ عورت کو بھڑکا کر آ پ پر زنا کی تہمت لگائی ، بنی اسرائیل نے آپ کو فتق کا عارضہ بتلایا کسی نے کہا کہ آپ نے اپنے بھائی ہارون کو مارڈالا۔ ان الزامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا اللہ ان پر بہت بہت سلام پیش فرمائے۔ آمین۔
باب کا مطلب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طرزعمل سے نکلا کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی جب دوسرے کئی لوگ موجو د تھے۔ یہ گستاخ منافق تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت تکلیفیں دی گئیں قارون نے ایک فاحشہ عورت کو بھڑکا کر آ پ پر زنا کی تہمت لگائی ، بنی اسرائیل نے آپ کو فتق کا عارضہ بتلایا کسی نے کہا کہ آپ نے اپنے بھائی ہارون کو مارڈالا۔ ان الزامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا اللہ ان پر بہت بہت سلام پیش فرمائے۔ آمین۔