‌صحيح البخاري - حدیث 6282

كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَقَالَ عِنْدَهُمْ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ إِلَى قُبَاءٍ، يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْهُ، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا البَحْرِ، مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَّةِ، أَوْ قَالَ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ - شَكَّ إِسْحَاقُ - قُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَدَعَا، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا البَحْرِ، مُلُوكًا عَلَى الأَسِرَّةِ، أَوْ: مِثْلَ المُلُوكِ عَلَى الأَسِرَّةِ فَقُلْتُ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: «أَنْتِ مِنَ الأَوَّلِينَ» فَرَكِبَتِ البَحْرَ زَمَانَ مُعَاوِيَةَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ البَحْرِ، فَهَلَكَتْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6282

کتاب: اجازت لینے کے بیان میں باب: اگر کوئی شخص کہیں ملاقات کو جائے اور دوپہر کو وہیں آرام کرے تو یہ جائز ہے ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہاکہ مجھ سے امام ما لک نے ، ان سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے۔ عبد اللہ بن ابی طلحہ نے ان سے سناوہ بیان کرتے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباءتشریف لے جاتے تھے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے گھر بھی جاتے تھے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور بیدار ہوئے تو آپ ہنس رہے تھے۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں غزوہ کر تے ہوئے میرے سامنے ( خواب میں ) پیش کئے گئے ، جو اس سمندر کے اوپر ( کشتیوں میں ) سوار ہوں گے ( جنت میں وہ ایسے نظر آئے ) جیسے بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں ، یا بیان کیا کہ بادشاہوں کی طرح تخت پر۔ اسحاق کوان لفظوں میں ذرا شبہ تھا ( ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ) میں نے عرض کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے بنائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر رکھ کر سو گئے اور جب بیدا ر ہوئے تو ہنس رہے تھے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستہ میں غزوہ کرتے ہوئے میرے سامنے پیش کئے گئے جو اس سمند ر کے اوپر سوارہوںگے جیسے بادشاہ تحت پر ہوتے ہیں یا مثل بادشاہوں کے تخت پر ۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ سے میرے لئے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کردے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اس گروہ کے سب سے پہلے لوگوں میں ہوگی چنانچہ ام حرام رضی اللہ عنہا نے ( معاویہ رضی اللہ عنہ کی شام پر گورنری کے زمانہ میں ) سمندری سفر کیا اور خشکی پر اترنے کے بعد اپنی سواری سے گر پڑیں اور وفات پاگئیں۔
تشریح : ہردوروایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولہ کا باب کے مطابق کرنے کا ذکر ہے یہی حدیث اورباب میں مطابقت ہے۔ پہلی روایت میں آپ کے خوشبودار پسینے کا ذکر ہے صد بار قابل تعریف ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ جن کو یہ بہترین خوشبو نصیب ہوئی۔ دوسری روایت میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا کے متعلق ایک پیش گوئی کا ذکر ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حرف بہ حرف صحیح ہوئی۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا اس جنگ میں واپسی کے وقت اپنی سواری سے گر کر شہید ہوگئی تھیں۔ اس طرح پیش گوئی پوری ہوئی۔ اس سے سمندری سفر کا جائز ہونا بھی ثابت ہوا، پر آج کل تو سمندر ی سفر بہت ضروری اور آسان بھی ہوگیا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔ ہردوروایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولہ کا باب کے مطابق کرنے کا ذکر ہے یہی حدیث اورباب میں مطابقت ہے۔ پہلی روایت میں آپ کے خوشبودار پسینے کا ذکر ہے صد بار قابل تعریف ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ جن کو یہ بہترین خوشبو نصیب ہوئی۔ دوسری روایت میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا کے متعلق ایک پیش گوئی کا ذکر ہے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں حرف بہ حرف صحیح ہوئی۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا اس جنگ میں واپسی کے وقت اپنی سواری سے گر کر شہید ہوگئی تھیں۔ اس طرح پیش گوئی پوری ہوئی۔ اس سے سمندری سفر کا جائز ہونا بھی ثابت ہوا، پر آج کل تو سمندر ی سفر بہت ضروری اور آسان بھی ہوگیا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔