كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ مَنْ أُلْقِيَ لَهُ وِسَادَةٌ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ - أَنَّهُ قَدِمَ الشَّأْمَ - ح وَحَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ذَهَبَ عَلْقَمَةُ، إِلَى الشَّأْمِ، فَأَتَى المَسْجِدَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي جَلِيسًا، فَقَعَدَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَهْلِ الكُوفَةِ؟ قَالَ: أَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي كَانَ لاَ يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ - يَعْنِي حُذَيْفَةَ - أَلَيْسَ فِيكُمْ - أَوْ كَانَ فِيكُمْ - الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشَّيْطَانِ - يَعْنِي عَمَّارًا - أَوَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّوَاكِ وَالوِسَادِ - يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ - كَيْفَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ: {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى} [الليل: 1] قَالَ: وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى فَقَالَ: مَا زَالَ هَؤُلاَءِ حَتَّى كَادُوا يُشَكِّكُونِي، وَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
باب: گاؤ تکیہ لگانا یا گدا بچھا نا ( جائزہے)
مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ، ان سے مغیرہ بن مقسم نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے کہ آپ ملک شام میں پہنچے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ اور مجھ سے ابوالولید نے بیان کیا ، کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے اور ان سے ابراہیم نے بیان کیاکہ علقمہ ملک شام گئے اور مسجد میں جاکر دورکعت نماز پڑھی پھر یہ دعا کی اے اللہ ! مجھے ایک ہم نشین عطا فرما ۔ چنانچہ وہ ابو درداءرضی اللہ عنہ کی مجلس میں جابیٹھے ۔ ابو درداءرضی اللہ عنہ نے دریافت کیا۔ تمہارا تعلق کہاں سے ہے ؟ کہاکہ اہل کوفہ سے۔ پوچھا کیا تمہارے یہاں ( نفاق اور منافقین کے ) بھیدوں کے جاننے والے وہ صحابی نہیں ہیں جن کے سوا کوئی اور ان سے واقف نہیں ہے۔ ان کااشارہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف تھا ۔ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں ( یا یو ں کہا کہ ) تمہارے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پنا ہ دی تھی ۔ اشارہ عمار رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں مسواک اور گدے والے نہیں ہیں ؟ ان کا اشارہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ ” واللیل اذا یغشیٰ “ کس طرح پڑھتے تھے ۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ ” والذکر والانثیٰ “ پڑھتے تھے۔ ابو درداءرضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ لوگ کوفہ والے اپنے مسلسل عمل سے قریب تھاکہ مجھے شبہ میں ڈال دیتے حالانکہ میں نے نبی کریم سے خود اسے سناتھا۔
تشریح :
ہر دوروایتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے گدا بچھا یا جانا مذکور ہے یہی باب سے مطابقت ہے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے جن تین بزرگوں کے مختلف مناقب بیان کئے یعنی حضرت حذیفہ ، حضرت عمار اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ، حضرت ابودرداء کا اصل منشاء وہ تھا جو حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قرات سے متعلق ہے، ان کا عمل اسی قرات پر تھا اور سبعہ قرات میں سے یہ بھی ایک قرات ہے مگر مشہور عام اور مقبول انام قرات وہ ہے جوجمہور قراء کے ہاں مقبول اور مروج ہے یعنی ”والذکروالانثیٰ“ کی جگہ ”وما خلق الذکر والانثیٰ“ مصحف عثمانی میں اس قرات کو ترجیح حاصل ہے۔ السیاق یرشد الی انہ اراد وصف کل واحد من الصحابۃ بما کان اختص بہ ان الفضل دون غیرہ من الصحابۃ ( فتح ) یعنی ہر صحابی کو فضل حاصل تھا اس کا اظہار مقصود تھا اوربس۔
ہر دوروایتوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے گدا بچھا یا جانا مذکور ہے یہی باب سے مطابقت ہے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے جن تین بزرگوں کے مختلف مناقب بیان کئے یعنی حضرت حذیفہ ، حضرت عمار اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ، حضرت ابودرداء کا اصل منشاء وہ تھا جو حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قرات سے متعلق ہے، ان کا عمل اسی قرات پر تھا اور سبعہ قرات میں سے یہ بھی ایک قرات ہے مگر مشہور عام اور مقبول انام قرات وہ ہے جوجمہور قراء کے ہاں مقبول اور مروج ہے یعنی ”والذکروالانثیٰ“ کی جگہ ”وما خلق الذکر والانثیٰ“ مصحف عثمانی میں اس قرات کو ترجیح حاصل ہے۔ السیاق یرشد الی انہ اراد وصف کل واحد من الصحابۃ بما کان اختص بہ ان الفضل دون غیرہ من الصحابۃ ( فتح ) یعنی ہر صحابی کو فضل حاصل تھا اس کا اظہار مقصود تھا اوربس۔