كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ مَنْ أَجَابَ بِلَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: أَنَا رَدِيفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ قَالَ مِثْلَهُ ثَلاَثًا: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى العِبَادِ» قُلْتُ: لاَ، قَالَ: «حَقُّ اللَّهِ عَلَى العِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلاَ يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا» ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ العِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ: أَنْ لاَ يُعَذِّبَهُمْ حَدَّثَنَا هُدْبَةُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مُعَاذٍ، بِهَذَا
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
باب: کوئی بلائے تو جواب میں لفظ لبیک ( حاضر ) اور سعدیک ( آپ کی خدمت کے لئے مستعد ) کہنا
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہاہم سے ہمام نے بیان کیا ، ان سے قتادہ نے ، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے معاذ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا اے معاذ ! میں نے کہا۔ ” لبیک وسعدیک “ ( حاضر ہوں ) پھر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ مجھے اسی طرح مخاطب کیا اس کے بعد فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ بندوںپر اللہ کاکیا حق ہے؟ ( پھر خود ہی جواب دیا ) کہ یہ کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر آپ تھوڑی دیر چلتے رہے اور فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کی ” لبیک وسعدیک “ فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ جب وہ یہ کرلیں تو اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے ؟ یہ کہ انہیں عذاب نہ دے۔
تشریح :
حدثنا هدبة، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن أنس، عن معاذ، بهذا.
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ، کہاہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی حدیث مذکور ہ بالا بیان کی۔
تشریح : حدیث ہذا میں شرک کی انتہائی مذمت ہے اورتوحید پر انتہائی بشارت بھی ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول لبیک وسعدیک سے ثابت ہوتی ہے۔ اللہ پر حق ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے ایسا وعدہ فرمایا ہے باقی اللہ پر واجب کوئی چیز نہیں ہے وہ جو چاہے کرے اس کی مرضی کے خلاف کوئی دم مارنے کا مجاز نہیں ہے اس لئے جو لوگ بحق فلاں بحق فلاں سے دعا کرتے ہیں ان کا یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا حق واجب نہیں ہے۔ یہاںحضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے جو خیال ظاہر کیا ہے اس سے ہم کو اتفاق نہیں ہے۔
حدثنا هدبة، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن أنس، عن معاذ، بهذا.
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا ، کہاہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی حدیث مذکور ہ بالا بیان کی۔
تشریح : حدیث ہذا میں شرک کی انتہائی مذمت ہے اورتوحید پر انتہائی بشارت بھی ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے قول لبیک وسعدیک سے ثابت ہوتی ہے۔ اللہ پر حق ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے ایسا وعدہ فرمایا ہے باقی اللہ پر واجب کوئی چیز نہیں ہے وہ جو چاہے کرے اس کی مرضی کے خلاف کوئی دم مارنے کا مجاز نہیں ہے اس لئے جو لوگ بحق فلاں بحق فلاں سے دعا کرتے ہیں ان کا یہ طریقہ غلط ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا حق واجب نہیں ہے۔ یہاںحضرت مولانا وحید الزماں مرحوم نے جو خیال ظاہر کیا ہے اس سے ہم کو اتفاق نہیں ہے۔