‌صحيح البخاري - حدیث 6266

كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ المُعَانَقَةِ، وَقَوْلِ الرَّجُلِ كَيْفَ أَصْبَحْتَ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَلِيًّا يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ خَرَجَ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي [ص:60] عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَبَا حَسَنٍ، كَيْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللَّهِ بَارِئًا» فَأَخَذَ بِيَدِهِ العَبَّاسُ فَقَالَ: أَلاَ تَرَاهُ، أَنْتَ وَاللَّهِ بَعْدَ الثَّلاَثِ عَبْدُ العَصَا، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيُتَوَفَّى فِي وَجَعِهِ، وَإِنِّي لَأَعْرِفُ فِي وُجُوهِ بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ المَوْتَ، فَاذْهَبْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَسْأَلَهُ: فِيمَنْ يَكُونُ الأَمْرُ، فَإِنْ كَانَ فِينَا عَلِمْنَا ذَلِكَ، وَإِنْ كَانَ فِي غَيْرِنَا أَمَرْنَاهُ فَأَوْصَى بِنَا، قَالَ عَلِيٌّ: «وَاللَّهِ لَئِنْ سَأَلْنَاهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَمْنَعُنَا لاَ يُعْطِينَاهَا النَّاسُ أَبَدًا، وَإِنِّي لاَ أَسْأَلُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6266

کتاب: اجازت لینے کے بیان میں باب: معانقہ یعنی گلے ملنے کے بیان میں اور ایک آدمی کا دوسرے سے پوچھنا کیوں آج صبح آپ کا مزاج کیساہے ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو بشر بن شعیب نے خبر دی، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، ان سے زہری نے، کہا مجھ کو عبد اللہ بن کعب نے خبرد ی اور ان کو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے خبردی کہ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( مرض الموت میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے ( دوسری سند ) بخاری نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عبد اللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبردی کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکلے ، یہ اس مرض کا واقعہ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی ۔ لوگوں نے پوچھا اے ابو لحسن ! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کیسی گزاری ؟ انہوں نے کہا کہ بحمدللہ آپ کو سکون رہاہے ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ حضرت عباس رضی ا للہ عنہ نے پکڑکر کہا ۔ کیا تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے نہیں ہو۔ ( واللہ ) تین دن کے بعد تمہیں لاٹھی کا بندہ بننا پڑے گا۔ واللہ میں سمجھتا ہوں کہ اس مرض میں آپ وفات پاجائیں گے۔ میں بنی عبد المطلب کے چہروں پر موت کے آثار کو خوب پہچانتا ہوں ، اس لئے ہمارے ساتھ تم آپ کے پاس چلو۔ تاکہ پوچھا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کس کے ہاتھ میں رہے گی اگر وہ ہمیں لوگوں کو ملتی ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا اور اگر دوسروں کے پاس جائے گی توہم عرض کریں گے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں کچھ وصیت کریں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ ! اگر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافت کی درخواست کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا تو پھر لوگ ہمیں کبھی نہیں دیںگے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نہیں پوچھوں گا کہ آپ کے بعد کون خلیفہ ہو۔
تشریح : حدیث اورباب میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے ”کیف اصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “کہہ کر مزاج پوچھا اور انہوں نے ”بحمد للہ بارئًا“ کہ کرجواب دیا اور اس حدیث میں بہت سے امور تشریح طلب ہیں۔ امر خلافت سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا وہ بالکل بجاتھا۔ چنانچہ بعد کے واقعات نے بتلادیاکہ خلافت جس ترتیب سے قائم ہوئی وہی ترتیب عند اللہ محبوب اور مقدر تھی اللہ پاک چاروں خلفائے راشدین کی ارواح طیبات کو ہماری طرف سے بہت سلام پیش فرمائے آمین ثم آمین۔ روایت میں لفظ عبد العصاء سے مراد یہ ہے کہ کوئی اور خلیفہ ہوجائے گا تم کو اس کی اطاعت کر نی ہوگی۔ لفظ کا لفظی ترجمہ لاٹھی کا غلام ہے مگر مطلب یہی ہے کہ کوئی غیر قریشی تم پر حکومت کرے گا تم اس کے ماتحت ہوکر رہوگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کما ل دانش مندی ہے کہ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے مشورہ کو قبول نہیں فرما یا اور صاف کہہ دیا کہ اگر ملاقات کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ تم کو خلافت نہیں مل سکتی تو پھر تو قیامت تک لوگ ہم کو خلیفہ نہیں بنائیں گے اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس امر کو تو کل علی اللہ پرچھوڑ دیا جا ئے ، اگر اس مرتبہ ہم کو خلافت نہ ملی تو آئندہ کے لئے تو امید رہے گی۔ ایسا پوچھنے میں ایک طرح کی بدفالی اورآنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج دینا بھی تھا۔ اس لئے حضرت علی رضی ا للہ عنہ نے اسے گوارا نہیں کیا اور اس میں خدا کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس وقت یہ مقدمہ گول مول رہے اور مسلمان اپنے صلاح اور مشورے سے جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں یہ طرز انتخاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قائم فرمایا جس کو اب سارے سیاست دان عین دانائی اور عقلمندی سمجھتے ہیں اور دنیا میں یہ پہلا طریقہ تھا کہ حکومت کامعاملہ رائے عامہ پر چھوڑا گیا جو آج ترقی پذیر لفظوں میں لفظ آزاد جمہوریہ سے بدل گیا ہے۔ خلافت کے معاملہ میں بعد میں جو کچھ ہوا کہ چارو ں خلفائے راشدین اپنے اپنے وقتوں میں مسند خلافت کی زینت ہوئے یہ عین منشاء الٰہی کے مطابق ہوا اور بہت بہتر ہوا” وکان عند اللہ قدرا مقدور ا۔ “ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وفیہم ان الخلافۃ لم تذکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم لعل اصلا لان العباس حلف انہ یصیر مامورا لا امرا لما کان یعرف من توجیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بہا الی غیرہ وفی سکوت علی دلیل علی علم علی بما قال العباس ( فتح ) یعنی اس میں دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہو ا اس لئے کہ حضر عباس رضی اللہ عنہ قسمیہ کہہ چکے تھے کہ وہ آپ کی وفات کے بعد آمر نہیں بلکہ مامور ہوکر رہیں گے اس لئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ حضرت علی رضی ا للہ عنہ سے غیر کی طرف محسوس کرچکے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سکوت ہی دلیل ہے کہ جو کچھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا وہ اس سے واقف تھے صاف ظاہر ہوگیا کہ حضرت علی رضی للہ عنہ کے لئے خلافت بلا فصل کا نعرہ محض امت میں انشقاق وافتر اق کے لئے کھڑاکیا گیا جس میں زیادہ حصہ مسلمان نما یہودیوں کا تھا۔ حدیث اورباب میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے ”کیف اصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “کہہ کر مزاج پوچھا اور انہوں نے ”بحمد للہ بارئًا“ کہ کرجواب دیا اور اس حدیث میں بہت سے امور تشریح طلب ہیں۔ امر خلافت سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا وہ بالکل بجاتھا۔ چنانچہ بعد کے واقعات نے بتلادیاکہ خلافت جس ترتیب سے قائم ہوئی وہی ترتیب عند اللہ محبوب اور مقدر تھی اللہ پاک چاروں خلفائے راشدین کی ارواح طیبات کو ہماری طرف سے بہت سلام پیش فرمائے آمین ثم آمین۔ روایت میں لفظ عبد العصاء سے مراد یہ ہے کہ کوئی اور خلیفہ ہوجائے گا تم کو اس کی اطاعت کر نی ہوگی۔ لفظ کا لفظی ترجمہ لاٹھی کا غلام ہے مگر مطلب یہی ہے کہ کوئی غیر قریشی تم پر حکومت کرے گا تم اس کے ماتحت ہوکر رہوگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کما ل دانش مندی ہے کہ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے مشورہ کو قبول نہیں فرما یا اور صاف کہہ دیا کہ اگر ملاقات کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ تم کو خلافت نہیں مل سکتی تو پھر تو قیامت تک لوگ ہم کو خلیفہ نہیں بنائیں گے اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس امر کو تو کل علی اللہ پرچھوڑ دیا جا ئے ، اگر اس مرتبہ ہم کو خلافت نہ ملی تو آئندہ کے لئے تو امید رہے گی۔ ایسا پوچھنے میں ایک طرح کی بدفالی اورآنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج دینا بھی تھا۔ اس لئے حضرت علی رضی ا للہ عنہ نے اسے گوارا نہیں کیا اور اس میں خدا کی حکمت اور مصلحت ہے کہ اس وقت یہ مقدمہ گول مول رہے اور مسلمان اپنے صلاح اور مشورے سے جسے چاہیں خلیفہ بنا لیں یہ طرز انتخاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ قائم فرمایا جس کو اب سارے سیاست دان عین دانائی اور عقلمندی سمجھتے ہیں اور دنیا میں یہ پہلا طریقہ تھا کہ حکومت کامعاملہ رائے عامہ پر چھوڑا گیا جو آج ترقی پذیر لفظوں میں لفظ آزاد جمہوریہ سے بدل گیا ہے۔ خلافت کے معاملہ میں بعد میں جو کچھ ہوا کہ چارو ں خلفائے راشدین اپنے اپنے وقتوں میں مسند خلافت کی زینت ہوئے یہ عین منشاء الٰہی کے مطابق ہوا اور بہت بہتر ہوا” وکان عند اللہ قدرا مقدور ا۔ “ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ وفیہم ان الخلافۃ لم تذکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم لعل اصلا لان العباس حلف انہ یصیر مامورا لا امرا لما کان یعرف من توجیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بہا الی غیرہ وفی سکوت علی دلیل علی علم علی بما قال العباس ( فتح ) یعنی اس میں دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہو ا اس لئے کہ حضر عباس رضی اللہ عنہ قسمیہ کہہ چکے تھے کہ وہ آپ کی وفات کے بعد آمر نہیں بلکہ مامور ہوکر رہیں گے اس لئے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ حضرت علی رضی ا للہ عنہ سے غیر کی طرف محسوس کرچکے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سکوت ہی دلیل ہے کہ جو کچھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا وہ اس سے واقف تھے صاف ظاہر ہوگیا کہ حضرت علی رضی للہ عنہ کے لئے خلافت بلا فصل کا نعرہ محض امت میں انشقاق وافتر اق کے لئے کھڑاکیا گیا جس میں زیادہ حصہ مسلمان نما یہودیوں کا تھا۔