كِتَابُ الأَذَانِ بَابٌ: كَمْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ، وَمَنْ يَنْتَظِرُ الإِقَامَةَ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الأَنْصَارِيَّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ المُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ، حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ [ص:128] صلّى الله عليه وسلم وَهُمْ كَذَلِكَ، يُصَلُّونَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ المَغْرِبِ، وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ شَيْءٌ»، قَالَ عُثْمَانُ بْنُ جَبَلَةَ، وَأَبُو دَاوُدَ: عَنْ شُعْبَةَ، لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلَّا قَلِيلٌ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: اذان اور تکبیر کے بیچ میں کتنا فاصلہ ہو
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمرو بن عامر انصاری سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ ( عہد رسالت میں ) جب مؤذن اذان دیتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ستونوں کی طرف لپکتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر تشریف لاتے تو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے ملتے۔ یہ جماعت مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں تھیں۔ اور ( مغرب میں ) اذان اور تکبیر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اور عثمان بن جبلہ اور ابوداود طیالسی نے شعبہ سے اس ( حدیث میں یوں نقل کیا ہے کہ ) اذان اور تکبیر میں بہت تھوڑا سا فاصلہ ہوتا تھا۔
تشریح :
مغرب کی جماعت سے قبل دورکعت سنت پڑھنے کا صحابہ کرام میں عام معمول تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ اذان اورتکبیر کے درمیان کم ازکم اتنا فاصلہ توہونا ہی چاہئیے کہ دورکعت نماز نفل پڑھی جاسکیں۔ حتیٰ کہ مغرب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
بعض فضلائے دیوبند نے لکھاہے کہ بعدمیں ان رکعتوں کے پڑھنے سے روک دیاگیا تھا۔ مگریہ وضاحت نہیں کی کہ روکنے والے کون صاحب تھے۔ شایدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت کے لیے کوئی حدیث ان کے علم میں ہو۔ مگرہماری نظر سے وہ حدیث نہیں گزری۔ یہ لکھنے کے باوجود ان ہی حضرات نے ان رکعتوں کو مباح بھی قرار دیا ہے۔ ( دیکھو تفہیم البخاری، پ3، ص:
مغرب کی جماعت سے قبل دورکعت سنت پڑھنے کا صحابہ کرام میں عام معمول تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ اذان اورتکبیر کے درمیان کم ازکم اتنا فاصلہ توہونا ہی چاہئیے کہ دورکعت نماز نفل پڑھی جاسکیں۔ حتیٰ کہ مغرب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
بعض فضلائے دیوبند نے لکھاہے کہ بعدمیں ان رکعتوں کے پڑھنے سے روک دیاگیا تھا۔ مگریہ وضاحت نہیں کی کہ روکنے والے کون صاحب تھے۔ شایدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت کے لیے کوئی حدیث ان کے علم میں ہو۔ مگرہماری نظر سے وہ حدیث نہیں گزری۔ یہ لکھنے کے باوجود ان ہی حضرات نے ان رکعتوں کو مباح بھی قرار دیا ہے۔ ( دیکھو تفہیم البخاری، پ3، ص: