كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ بَابُ التَّسْلِيمِ وَالِاسْتِئْذَانِ ثَلاَثًا صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الأَنْصَارِ، إِذْ جَاءَ أَبُو مُوسَى كَأَنَّهُ مَذْعُورٌ، فَقَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى عُمَرَ ثَلاَثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي فَرَجَعْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ؟ قُلْتُ: اسْتَأْذَنْتُ ثَلاَثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي فَرَجَعْتُ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلاَثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ» فَقَالَ: وَاللَّهِ لَتُقِيمَنَّ عَلَيْهِ بِبَيِّنَةٍ، أَمِنْكُمْ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ أُبَيُّ [ص:55] بْنُ كَعْبٍ: وَاللَّهِ لاَ يَقُومُ مَعَكَ إِلَّا أَصْغَرُ القَوْمِ، فَكُنْتُ أَصْغَرَ القَوْمِ فَقُمْتُ مَعَهُ، فَأَخْبَرْتُ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ وَقَالَ ابْنُ المُبَارَكِ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ، بِهَذَا
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
باب: سلام اور اجازت تین مرتبہ ہو نی چاہئے
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا ان سے بسر بن سعید اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ تشریف لائے جیسے گھبرائے ہوئے ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا ، اس لئے واپس چلا آیا ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا ) تو انہوں نے دریافت کیا کہ ( اندر آنے میں ) کیا بات مانع تھی ؟ میں نے کہا کہ میں نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی اور جب مجھے کوئی جواب نہیں ملا تو واپس چلاگیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ: جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت چاہے اور اجا زت نہ ملے تو واپس چلاجانا چاہئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ ! تمہیں اس حدیث کی صحت کے لئے کو ئی گوا ہ لاناہو گا ۔ ( ابو موسی رضی اللہ عنہ نے مجلس والوں سے پوچھا ) کیا تم مےں کوئی ایسا ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہو ؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! تمہارے ساتھ ( اس کی گواہی دینے کے سوا ) جماعت میں سب سے کم عمر شخص کے کوئی اور نہیں کھڑا ہو گا ۔ ابو سعید نے کہا اور میں ہی جماعت کا وہ سب سے کم عمر آدمی تھا میں ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوگیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے ۔ اور ابن المبارک نے بیان کیا کہ مجھ کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی ، کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا ، انہوں نے بسر بن سعید سے ، کہا میں نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے سنا پھر یہی حدیث نقل کی ۔
تشریح :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گواہی کے بعد فورا اس حدیث کو تسلیم کر لیا۔ مومن کی شان یہی ہونی چاہئے رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ پس بسر کا سماع ابو سعید سے ثابت ہوا اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک راوی کی روایت بھی جب وہ ثقہ ہو حجت ہے اور قیاس کو اس کے مقابل ترک کرد ینگے۔ اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ بعض نسخوں میں یہ عبارت زائدہے قال ابو عبد اللہ اراد عمر انتبثت التثبت لا ان لا یجیزخبر الواحد یعنی امام بخاری نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ابو موسی سے گواہ لانے کو کہا تو ان کا مطلب یہ تھا کہ حدیث کی اور زیادہ مضبوطی ہو جائے یہ سبب نہیں تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک صحابی کی روایت کردہ حدیث کو صحیح نہں سمجھتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گواہی کے بعد فورا اس حدیث کو تسلیم کر لیا۔ مومن کی شان یہی ہونی چاہئے رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ پس بسر کا سماع ابو سعید سے ثابت ہوا اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک راوی کی روایت بھی جب وہ ثقہ ہو حجت ہے اور قیاس کو اس کے مقابل ترک کرد ینگے۔ اہل حدیث کا یہی قول ہے۔ بعض نسخوں میں یہ عبارت زائدہے قال ابو عبد اللہ اراد عمر انتبثت التثبت لا ان لا یجیزخبر الواحد یعنی امام بخاری نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ابو موسی سے گواہ لانے کو کہا تو ان کا مطلب یہ تھا کہ حدیث کی اور زیادہ مضبوطی ہو جائے یہ سبب نہیں تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک صحابی کی روایت کردہ حدیث کو صحیح نہں سمجھتے تھے۔