كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الكُنْيَةِ لِلصَّبِيِّ وَقَبْلَ أَنْ يُولَدَ لِلرَّجُلِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَكَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو عُمَيْرٍ - قَالَ: أَحْسِبُهُ - فَطِيمًا، وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَالَ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ» نُغَرٌ كَانَ يَلْعَبُ بِهِ، فَرُبَّمَا حَضَرَ الصَّلاَةَ وَهُوَ فِي بَيْتِنَا، فَيَأْمُرُ بِالْبِسَاطِ الَّذِي تَحْتَهُ فَيُكْنَسُ وَيُنْضَحُ، ثُمَّ يَقُومُ وَنَقُومُ خَلْفَهُ فَيُصَلِّي بِنَا
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: بچہ کی کنیت رکھنا اس سے پہلے کہ وہ صاحب اولاد ہو
ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا ، ان سے ابو التیاح نے اور ان سے انس نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے ، میرا ایک بھائی ابو عمیر نامی تھا ۔ بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ بچہ کا دودھ چھوٹ چکا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لاتے تو اس سے مزاحاً فرماتے یا ابا عمیر مافعل النغیر اکثر ایسا ہوتا کہ نماز کا وقت ہوجاتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں ہوتے ۔ آپ اس بستر کو بچھانے کا حکم دیتے جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہوتے ، چنانچہ اسے جھاڑ کر اس پر پانی چھڑک دیا جاتا ۔ پھر آپ کھڑے ہوتے اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے اور آ پ ہمیں نماز پڑھاتے ۔
تشریح :
آپ نے اس بچے کی کنیت ابو عمیر ، عمیر کا باپ رکھ دی حالانکہ وہ خود بچہ تھا اور عمیر اس کا کوئی بچہ نہ تھا اس طرح پہلے ہی سے بچے کی کنیت رکھ دینا عربوں کا دستور تھا۔ نغیر نامی چڑیا سے یہ بچہ کھیلا کرتا تھا اسی لئے آپ نے مزاحاً یہ فرمایا ۔ صلی اللہ علیہ الف الف مرۃ بعدد کل ذرۃ آمین یا رب العالمین ( راز )
آپ نے اس بچے کی کنیت ابو عمیر ، عمیر کا باپ رکھ دی حالانکہ وہ خود بچہ تھا اور عمیر اس کا کوئی بچہ نہ تھا اس طرح پہلے ہی سے بچے کی کنیت رکھ دینا عربوں کا دستور تھا۔ نغیر نامی چڑیا سے یہ بچہ کھیلا کرتا تھا اسی لئے آپ نے مزاحاً یہ فرمایا ۔ صلی اللہ علیہ الف الف مرۃ بعدد کل ذرۃ آمین یا رب العالمین ( راز )