كِتَابُ العِلْمِ بَابُ طَرْحِ الإِمَامِ المَسْأَلَةَ عَلَى أَصْحَابِهِ لِيَخْتَبِرَ مَا عِنْدَهُمْ مِنَ العِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَإِنَّهَا مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ» قَالَ: فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ البَوَادِي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَاسْتَحْيَيْتُ، ثُمَّ قَالُوا: حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «هِيَ النَّخْلَةُ»
کتاب: علم کے بیان میں
باب:اس بارے میں کہ استاد اپنے شاگردوں کا علم آزمانے کے لیے ان سے کوئی سوال کرے (یعنی امتحان لینے کا بیان)
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ( ایک مرتبہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں میں چلے گئے۔ عبداللہ نے کہا کہ میرے دل میں آیا کہ بتلا دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن ( وہاں بہت سے بزرگ موجود تھے اس لیے ) مجھ کو شرم آئی۔ آخر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی بیان فرما دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
تشریح :
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان متوکل علی اللہ ہوکرہرحال میں ہمیشہ خوش وخرم رہتا ہے۔
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان متوکل علی اللہ ہوکرہرحال میں ہمیشہ خوش وخرم رہتا ہے۔