كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ اسْمِ الحَزْنِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ أَبَاهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا اسْمُكَ» قَالَ: حَزْنٌ، قَالَ: «أَنْتَ سَهْلٌ» قَالَ: لاَ أُغَيِّرُ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي قَالَ ابْنُ المُسَيِّبِ: «فَمَا زَالَتِ الحُزُونَةُ فِينَا بَعْدُ»
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: ”حزن“ نام رکھنا
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا ، انہوں نے نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب رضی اللہ عنہ نے کہ ان کے والد ( حزن بن ابی وہب ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیاہے ؟ انہوں نے بتایا کہ حزن ( بمعنی سختی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سہل ( بمعنی نرمی ) ہو ، پھر انہوں نے کہا کہ میرا نام میرے والد رکھ گئے ہیں اسے میں نہیں بدلوں گا ۔ حضرت ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے تھے کہ چنانچہ ہمارے خاندان میں بعد تک ہمیشہ سختی اور مصیبت کا دور رہا ۔
تشریح :
یہ سزا تھی اس بات کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ قبول نہیں کیا اورحزن بمعنی سختی قساوت کی جگہ سہل بمعنی نرمی نام پسند نہیں کیا اوریہ نہ جانا کہ نام کا اثر مسمیٰ میں ضرور ہوتا ہے ۔ معلوم ہواکہ ایسا غلط نام والدین اگر رکھ دیں تووہ نام بعد میں بدل کر اچھا نام رکھ دینا چاہیے ۔ اکثر عوام اپنے بچوں کانام غلط ملط رکھ دیتے ہیں۔ حالانکہ سب سے بہتر نام وہ ہے جس میں اللہ پاک کی طرف عبدیت پائی جائے جیسے عبداللہ عبدالرحمن وغیرہ ۔ انبیاءکرام کے نام پر نام رکھ دینا بھی جائز درست ہے جیسے ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ،عیسیٰ ، موسیٰ وغیرہ وغیرہ ۔ بعض لوگ شرکیہ نام رکھ دیتے ہیں وہ بہت ہی غلط ہوتے ہیں جیسے عبدالنبی عبدالرسول غلام جیلانی وغیرہ وغیرہ۔ سہل حزن کی ضد ہے۔ یعنی نرم اور ہموار زمین ۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ بڑا آدمی اگر کوئی مفید مشورہ دے تو اسے قبول کر لینا بہتر ہے خواہ وہ آباءواجداد کی رسموں کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتا ہو۔ ماں باپ کے طور طریقے وہیں تک قابل عمل ہوتے ہیں جو شریعت اسلامی کے موافق ہوں ورنہ ماں باپ کی اندھی تقلید کوئی چیز نہیں ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کبار تابعین میں سے ہیں۔خلافت فاروقی کے دوسرے سال یہ پیدا ہوئے اور خلافت ولید بن عبدالملک 94ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے والد حضرت مسیب رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے بیعت کی تھی۔ مسیب ہی کے باپ کا نام حزن تھا۔ حزن بن ذبیب بن عمر القریشی المخزومی جو مہاجرین میں سے تھے اور جاہلیت میں اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتاتھا۔
یہ سزا تھی اس بات کی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ قبول نہیں کیا اورحزن بمعنی سختی قساوت کی جگہ سہل بمعنی نرمی نام پسند نہیں کیا اوریہ نہ جانا کہ نام کا اثر مسمیٰ میں ضرور ہوتا ہے ۔ معلوم ہواکہ ایسا غلط نام والدین اگر رکھ دیں تووہ نام بعد میں بدل کر اچھا نام رکھ دینا چاہیے ۔ اکثر عوام اپنے بچوں کانام غلط ملط رکھ دیتے ہیں۔ حالانکہ سب سے بہتر نام وہ ہے جس میں اللہ پاک کی طرف عبدیت پائی جائے جیسے عبداللہ عبدالرحمن وغیرہ ۔ انبیاءکرام کے نام پر نام رکھ دینا بھی جائز درست ہے جیسے ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ،عیسیٰ ، موسیٰ وغیرہ وغیرہ ۔ بعض لوگ شرکیہ نام رکھ دیتے ہیں وہ بہت ہی غلط ہوتے ہیں جیسے عبدالنبی عبدالرسول غلام جیلانی وغیرہ وغیرہ۔ سہل حزن کی ضد ہے۔ یعنی نرم اور ہموار زمین ۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ بڑا آدمی اگر کوئی مفید مشورہ دے تو اسے قبول کر لینا بہتر ہے خواہ وہ آباءواجداد کی رسموں کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتا ہو۔ ماں باپ کے طور طریقے وہیں تک قابل عمل ہوتے ہیں جو شریعت اسلامی کے موافق ہوں ورنہ ماں باپ کی اندھی تقلید کوئی چیز نہیں ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کبار تابعین میں سے ہیں۔خلافت فاروقی کے دوسرے سال یہ پیدا ہوئے اور خلافت ولید بن عبدالملک 94ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے والد حضرت مسیب رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شجرہ کے نیچے بیعت کی تھی۔ مسیب ہی کے باپ کا نام حزن تھا۔ حزن بن ذبیب بن عمر القریشی المخزومی جو مہاجرین میں سے تھے اور جاہلیت میں اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتاتھا۔