كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «سَمُّوا بِاسْمِي وَلاَ تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي» صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ المُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلاَمٌ فَسَمَّاهُ القَاسِمَ، فَقَالُوا: لاَ نَكْنِيكَ بِأَبِي القَاسِمِ وَلاَ نُنْعِمُكَ عَيْنًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «أَسْمِ ابْنَكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ»
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: نبی کریم ﷺ کا فرمان کہ میرے نام پر نام رکھو ، لیکن میری کنیت نہ رکھو
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے محمد بن المنکدر سے سنا کہ کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ہم میں سے ایک آدمی کے یہاں بچہ پیدا ہو اتو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا ۔ صحابہ نے کہاکہ ہم تمہاری کنیت ابو القاسم نہیں رکھیں گے اور نہ تیری آنکھ اس کنیت سے پکار کر ٹھنڈی کریں گے ۔ وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس کا ذکر کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے لڑ کے کا نام عبدالرحمن رکھ لو ۔
تشریح :
اکثر علماءنے کہا ہے کہ یہ ممانعت آپ کی حیات تک تھی کیونکہ اس وقت ابو القاسم کنیت رکھنے سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے پکارا یا ابا القاسم ۔ آپ اس پر متوجہ ہو گئے تو اس شخص نے کہا کہ میں نے آپ کو نہیں پکارا تھا اس وقت آپ نے اشتباہ کو روکنے کے لئے یہ حکم صادر فرمایا۔
اکثر علماءنے کہا ہے کہ یہ ممانعت آپ کی حیات تک تھی کیونکہ اس وقت ابو القاسم کنیت رکھنے سے آپ کو تکلیف ہوتی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے پکارا یا ابا القاسم ۔ آپ اس پر متوجہ ہو گئے تو اس شخص نے کہا کہ میں نے آپ کو نہیں پکارا تھا اس وقت آپ نے اشتباہ کو روکنے کے لئے یہ حکم صادر فرمایا۔