كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّهُ أَقْبَلَ هُوَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةُ، مُرْدِفُهَا عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَثَرَتِ النَّاقَةُ، فَصُرِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمَرْأَةُ، وَأَنَّ أَبَا طَلْحَةَ - قَالَ: أَحْسِبُ - اقْتَحَمَ عَنْ بَعِيرِهِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ، هَلْ أَصَابَكَ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالَ: «لاَ، وَلَكِنْ عَلَيْكَ بِالْمَرْأَةِ» فَأَلْقَى أَبُو طَلْحَةَ ثَوْبَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَقَصَدَ قَصْدَهَا، فَأَلْقَى ثَوْبَهُ عَلَيْهَا، فَقَامَتِ المَرْأَةُ، فَشَدَّ لَهُمَا عَلَى رَاحِلَتِهِمَا فَرَكِبَا، فَسَارُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِظَهْرِ المَدِينَةِ - أَوْ قَالَ: أَشْرَفُوا عَلَى المَدِينَةِ - قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُهَا حَتَّى دَخَلَ المَدِينَةَ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: کسی کا یہ کہنا اللہ مجھے آپ پر قربان کرے
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اوران سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اور ابو طلحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مدینہ منورہ کے لئے ) روانہ ہوئے ۔ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے تھیں ، راستہ میں کسی جگہ اونٹنی کاپاؤں پھسل گیا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین گر گئے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے ابو طلحہ نے اپنی سواری سے فوراً اپنے کو گرا دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کیا یا نبی اللہ ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ آپ پرمجھے قربان کرے کیا آپ کو کوئی چوٹ آئی ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ، البتہ عورت کو دیکھو ۔ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ، پھر ام المؤمنین کی طرف بڑھے اور اپنا کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا ۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہو گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین کے لئے ابو طلحہ نے پالان مضبوط باندھا ۔ اب آپ نے سوا ر ہو کر پھر سفر شروع کیا ، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے ( یا یوں کہا کہ مدینہ دکھائی دینے لگا ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور اس کی حمد بیان کرتے ہوئے “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے برابر کہتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہو گئے ۔
تشریح :
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر از راہ تعظیم لفظ جعلنی اللہ فداک ( اللہ مجھ کو آپ پر قربان کرے ) بولا۔ جس کو آپ نے ناپسند نہیں فرمایا ۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ مدینہ منورہ خیریت سے واپسی پر آپ نے آئبون تائبون الخ کے الفاظ استعمال فرمائے ۔ اب بھی سفر سے وطن بخیریت واپسی پر ان الفاظ کا ورد کرنا مسنون ہے۔ خاص طور پر حاجی لوگ جب وطن پہنچیں تو یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنے شہر یا بستی میں داخل ہوں۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر از راہ تعظیم لفظ جعلنی اللہ فداک ( اللہ مجھ کو آپ پر قربان کرے ) بولا۔ جس کو آپ نے ناپسند نہیں فرمایا ۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ مدینہ منورہ خیریت سے واپسی پر آپ نے آئبون تائبون الخ کے الفاظ استعمال فرمائے ۔ اب بھی سفر سے وطن بخیریت واپسی پر ان الفاظ کا ورد کرنا مسنون ہے۔ خاص طور پر حاجی لوگ جب وطن پہنچیں تو یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنے شہر یا بستی میں داخل ہوں۔