كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ أَذَانِ الأَعْمَى إِذَا كَانَ لَهُ مَنْ يُخْبِرُهُ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ بِلاَلًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ»، ثُمَّ قَالَ: وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، لاَ يُنَادِي حَتَّى يُقَالَ لَهُ: أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: نابینا شخص کے اذان دینے کا بیان
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات رہے اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ کھاتے پیتے رہو۔ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ وہ نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی۔
تشریح :
عہدرسالت ہی سے یہ دستور تھا کہ سحری کی اذان حضرت بلال دیاکرتے تھے اورنماز فجر کی اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا۔ عہدخلافت میں بھی یہی طریقہ رہا اور مدینہ منورہ میں آج تک یہی دستور چلا آ رہا ہے۔ جو لوگ اذان سحری کی مخالفت کرتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اس اذان سے نہ صرف سحری کے لیے بلکہ نماز تہجد کے لیے بھی جگانا مقصود ہے۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
عہدرسالت ہی سے یہ دستور تھا کہ سحری کی اذان حضرت بلال دیاکرتے تھے اورنماز فجر کی اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا۔ عہدخلافت میں بھی یہی طریقہ رہا اور مدینہ منورہ میں آج تک یہی دستور چلا آ رہا ہے۔ جو لوگ اذان سحری کی مخالفت کرتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اس اذان سے نہ صرف سحری کے لیے بلکہ نماز تہجد کے لیے بھی جگانا مقصود ہے۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔