كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالحُدَاءِ وَمَا يُكْرَهُ مِنْهُ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَسِرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الأَكْوَعِ: أَلاَ تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ؟ قَالَ: وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو بِالقَوْمِ يَقُولُ: [البحر الرجز] اللَّهُمَّ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا ... وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءٌ لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا ... وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا ... إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ هَذَا السَّائِقُ» قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الأَكْوَعِ، فَقَالَ: «يَرْحَمُهُ اللَّهُ» فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَوْلاَ أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ، حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ اليَوْمَ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ، أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذِهِ النِّيرَانُ، عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ» قَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ: «عَلَى أَيِّ لَحْمٍ؟» قَالُوا: عَلَى لَحْمِ حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَهْرِقُوهَا وَاكْسِرُوهَا» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا؟ قَالَ: «أَوْ ذَاكَ» فَلَمَّا تَصَافَّ القَوْمُ، كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ، فَتَنَاوَلَ بِهِ يَهُودِيًّا لِيَضْرِبَهُ، وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، فَلَمَّا قَفَلُوا قَالَ سَلَمَةُ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاحِبًا، فَقَالَ لِي: «مَا لَكَ» فَقُلْتُ: فِدًى لَكَ أَبِي وَأُمِّي، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ: «مَنْ قَالَهُ؟» قُلْتُ: قَالَهُ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَأُسَيْدُ بْنُ الحُضَيْرِ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ - وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ - إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، قَلَّ عَرَبِيٌّ نَشَأَ بِهَا مِثْلَهُ»
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: شعر، رجز اورحدی خوانی کاجائز ہونا
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے ، ان سے برید ابن ابی عبید نے اوران سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ خیبر میں گئے اورہم نے رات میں سفر کیا ، اتنے میں مسلمانوں کے آدمی نے عامر بن اکوع رضی للہ عنہ سے کہا کہ اپنے کچھ شعر اشعار سناؤ ۔ راوی نے بیان کیا کہ عامر شاعر تھے ۔ وہ لوگوں کو اپنی حدی سنانے لگے ۔ ” اے اللہ ! اگر تونہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے نہ ہم صدقہ نہ دے سکتے اور نہ نماز پڑھ سکتے ۔ ہم تجھ پر فداہوں ، ہم نے جو کچھ پہلے گناہ کئے ان کو تو معاف کردے اور جب ( دشمن سے ) ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہم پر سکون نازل فرما ۔ جب ہمیں جنگ کے لئے بلایا جاتا ہے ، تو ہم موجود ہوجاتے ہیں اور دشمن نے بھی پکارکر ہم سے نجات چاہی ہے ۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون اونٹوں کو ہانک رہا ہے جو حدی گا رہا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ عامر بن اکوع ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک اس پر رحم کرے ۔ ایک صحابی یعنی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، یا رسول اللہ ! اب تو عامر شہید ہوئے ۔ کاش اور چند روز آپ ہم کو عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم خیبر آئے اور اس کو گھیر لیا اس گھراؤ میں ہم شدید فاقوں میں مبتلا ہوئے ، پھر اللہ تعالیٰ نے خیبر والوں پر ہم کو فتح عطافرمائی جس دن ان پر فتح ہوئی اس کی شام کو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ آگ کیسی ہے ، کس کام کے لئے تم لوگوں نے یہ آگ جلائی ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ گوشت پکانے کے لئے ۔ اس پر آپ نے دریافت فرمایا کس چیز کے گوشت کے لئے ؟ صحابہ نے کہا کہ بستی کے پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، گوشت کو برتنوں میں سے پھینک دو اور برتنوں کو توڑ دو ۔ ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم گوشت تو پھینک دیں گے ، مگر برتن توڑنے کے بجائے اگر دھو لیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا یوں ہی کرلو ۔ جب لوگوں نے جنگ کی صف بندی کر لی تو عامر ( ابن اکوع شاعر ) نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا ، ان کی تلوار چھوٹی تھی اس کی نوک پلٹ کر خود ان کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی ۔ جب لوگ واپس آنے لگے تو سلمہ ( عامر کے بھائی ) نے بیان کیا کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ میرے چہرے کا رنگ بدلا ہواہے ۔ دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں اور باپ فدا ہوں ، لوگ کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے ۔ ( کیونکہ ان کی موت خود ان کی تلوار سے ہوئی ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس نے کہا ؟ میں نے عرض کیا ، فلاں ، فلاں ، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری نے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس نے یہ بات کہی اس نے جھوٹ کہا ہے انہیں تو دوہرا اجر ملے گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا کہ وہ عابد بھی تھا اور مجاہد بھی ( توعبادت اور جہاد دونوں کا ثواب اس نے پایا ) عامرکی طرح تو بہت کم بہادر عرب میں پیدا ہوئے ہیں ( وہ ایسا بہادر اور نیک آدمی تھا )
تشریح :
عامرکےلیے جو لفظ آپ نے استعمال فرمائے وہ ان کی شہادت کی پیش گوئی تھی، کیونکہ جس کےلیے آپ لفظ ’’برحمۃ اللہ ،، فرمادیتے وہ ضرور شہید ہوجاتا یہ آپ کا ایک معجزہ تھا۔اسی سےلوگوں نے لفظ مرحوم نکالا ہے،جو فوت شدہ مسلمانوں پربولا جاتاہے اورروایت میں حدی خوانی اوررجز وغیرہ کا ذکر ہے،باب سےیہی مناسبت ہے۔اشعار مذکورہ کا ترجمہ حضرت مولاناوحید الزمان مرحوم کےلفظوں میں یہ ہے۔
گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شہ عالی صفات ! تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اورنہ دیتے ہم زکوۃ
تجھ پہ صدقے جب تک دنیا میں ہم زندہ رہیں بخش دے ہم کو، لڑائی میں عطا فرماثبات
اپنی رحمت ہم پہ نازل کرشہ والا صفات جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی صفات
چیخ چلا کرانہوں نےہم سےچاہی ہےنجات چیخ چلا کرانہوں نےہم سے چاہی نجات
حدی ایک خاص لہجہ کاگانا جس کوسن کر تھکا ہوااونٹ تازہ دم ہوکر مست ہوجاتا ہے (اکمال ،صفحہ : 468 ) اس سے رزمیہ نظموں کاجواز نکلتاہے۔
یہاں مذکورہ احادیث میں کچھ جنگ خیبر کےواقعات بیان کئےگئے ہیں اوریہ ہمارے محترم کاتب صاحب کی مہربانی ہےکہ انہوں نے پچھلے صفحات میں اردو کو اتنا خفی کردیا کہ صفحات کےمطابق عربی اردو میں کافی تفاوت واقع ہوگیا اوریہ آخری صفحات خالی رہ گئے یہاں مرقومہ احادیث کا ترجمہ پچھلے صفحات پرچلا گیا۔امید ہےکہ اس سلسلہ میں قارئین کرام ہم کو معذور تصور فرماتے ہوئے ان خالی صفحات پرجنگ خیبر کی تفصیلات معلوم کرکے محفوظ ہوں گے جنگ خیبر حدیبیہ کےبعد واقع ہوئی۔جس کےموقعہ پر اللہ پاک نے آیت وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ (الفتح: 20) ناز ل فرماکربعد کی ہونے والی فتوحات پراشارہ فرمادیا اس لیے مناسب ہوگا کہ صلح حدیبیہ ہی سے آپ مطالعہ فرما کرجنگ خیبر کی تفصیلات معلوم کریں یہ مذکورہ ذیل تفصیلات ہمارے بزرگ ترین استاذحضرت قاضی سلیمان صاحب سلمان � کی قلم حقیقت رقم سے معطالعہ فرمارہے ہیں۔حضرت مرحوم یوں شروع فرمارہےہیں:
صلح حدیبیہ ( 6 ہجری مقدس ) اس سال نبی ﷺ نےاپنا ایک خواب مسلمانوں کوسنایا فرمایا ’’میں نےدیکھا گویا میں اور سلمان مکہ پہنچ گئے ہیں اوربیت اللہ کا طواف کررہے ہیں ،، اس خواب کےسننے سے غریب الوطن مسلمانوں کواس شوق نےجو بیت اللہ کےطواف کاان کےدل میں تھا بےچین کردیا اورانہوں نے اسی سال نبی ﷺ کوسفر مکہ کےلیے آمادہ کرلیا ،مدینہ سےمسلمانوں نےسامان جنگ ساتھ نہیں لیا ۔بلکہ قربانی کےاونٹ ساتھ لئے اورسفر بھی ذیقعدہ کےمہینہ میں کیا جس میں عرب قدیم رواج کی پابندی سےجنگ ہرگز نہ کیا کرتے تھےاورجس میں ہر ایک دشمن کوبلا روک ٹوک مکہ آنے کی اجازت ہواکرتی تھی ۔جب مکہ 19 میل رہ گیا تونبی ﷺ نےمقام حدیبیہ سے قریش کےپاس اپنے آنے کی اطلاع بھیج دی اورآگے بڑھنے کی اجازت بھی ان سےچاہی ۔
عثمان بن عفان جن کا اسلامی تاریخ میں ذولنورین لقب ہے، سفیربنا کربھیجے گئے۔ان کےجانے کےبعد لشکر اسلامی میں یہ خبر پھیل گئی کہ قریش نےحضرت عثمان کوقتل یاقید کردیا ہے۔اس لیے نبی ﷺ نےاس بے سروسامانی میں جمعیت سےجان نثاری کی بیعت لی کہ اگر لڑنا بھی پڑا تو ثابت قدم رہیں گے۔بیعت کرنے والوں کی تعداد چودہ سوتھی۔قرآن مجید میں ہے۔لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذیبایعونک تحت الشجرۃ اس بیعت میں نبی کریم ﷺ نےاپنے بائیں ہاتھ کو عثمان کا داہنا ہاتھ قرار دیا اوران کی جانب سے اپنے ہاتھ پربیعت کی ۔ اس بیعت کاحال سن کرقریش ڈر گئے اوران کےسردار یکے بعد دیگر ے حدیبیہ میں حاضر ہوئے۔عروہ بن مسعود جو قریش کی جانب سےآیا اس نےقریش کوواپس جاکر کہا (یہ عروہ جوآج قریش کا سفیر بن کرآیا تھا، چند سال کےبعد خود بخود مسلماں ہوگیا تھا، اوراپنی قوم میں تبلیغ اسلام کےلیے سفیر اسلام بن کرگیا تھا۔
اےقوم ! مجھے بارہا نجاشی (بادشاہ حبش) قیصر (بادشاہ قسطنطنیہ ) کسریٰ (بادشاہ ایران ) کےدربار میں جانے کا اتقاق ہواہے مگر مجھے کوئی بھی ایسا بادشاہ نظرنہ آیا جس کی عظمت اس کےدربار والوں کےدل میں ایسی ہوجیسے اصحاب محمد کےدل میں محمد کی ہے (ﷺ) محمدﷺ تھوکتا ہے تواس کا آب دہن زمین پرگرنے نہیں پاتا ۔کسی نہ کسی کےہاتھ ہی پرگرتا ہے اور وہ شخص اس آب دہن کواپنے چہرے پرمل لیتا ہے۔جب محمد (ﷺ) کوئی حکم دیتا ہےتوتعمیل کےلیے سب مبادرت کرتےہیں۔جب وہ وضو کرتا ہےتوآب مستعمل وضو کے لیے گرے پڑتے ہیں گویا لڑائی ہوپڑے گی۔جب کلام کرتاہے تو سب کےسب چپ ہوجاتے ہیں ۔ ان کےدل میں محمد (ﷺ) کااتناادب ہے کہ وہ اس کےسامنے نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔میری رائے ہےکہ ان سےصلح کرلو جس طرح بھی بنے ۔سوچ سمجھ کر قریش صلح پرآمادہ ہوئے۔صلح کےلیے مندرجہ ذیل شرائط طے ہوئیں۔
(1) دس سال تک باہمی صلح رہےگی،جانبین کی آمدوروفت میں کسی کوروک ٹوٹ نہ ہوگی
(2) جو قبائل چاہیں ،قریش سےمل جائیں اورجوقبائل چاہیں وہ مسلمانوں کی جانب شامل ہوجائیں ۔دوست دار قبائل کےحقوق بھی یہی ہوں گے
(3) اگلے سال مسلمانوں کوطواف کعبہ کی اجازت ہوگی۔ اس وقت ہتھیار ان کے جسم پر نہ ہوں گےگو سفر میں ساتھ ہوں
(4) اگر قریش میں سے کوئی شخص نبی ﷺ کےپاس مسلمان ہوکر چلا جائے تونبی ﷺ اس شخص کوقریش کےطلب کرنے پر واپس کردیں گے، لیکن اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ کر قریش سےجاملے توقریش اسے واپس نہ کریں گے۔
آخری شرط سن کر تمام مسلمان بجز ابوبکر صدیق گھبرا اٹھے،عمر فاروق اس بارے میں زیادہ پرجوش تھے۔لیکن نبی کریم ﷺ نےہنس کراس شرط کوبھی منظور فرمالیا ۔معاہد ہ حضرت علی مرتضیٰ نےلکھا تھا۔انہوں نے شروع میں لکھا ،بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سہیل جوقریش کی طرف سےمختار معاہدہ تھا، بولا ،بخدا ہم نہیں جانتے کہ رحمن کسے کہتے ہیں باسمک اللھم لکھو۔نبی ﷺ نےوہی لکھ دینےکا حکم دیا ۔ حضرت علی نےپھر لکھایہ معاہدہ ’’ محمد رسول اللہ ،، اور قریش کےدرمیان منعقد ہوا ہے۔سہیل نےاس پر بھی اعتراض کیا اورنبی کریم ﷺ نےاس کی درخواست پرمحمد بن عبداللہ لکھنے کا حکم دیا۔(بخاری عن مسور بن مخرمہ باب الشروط فی الجہاد ) یہی سہیل جوآج اسم مبارک محمد ﷺ کےساتھ رسول لکھنے پراعتراض کرتا ہےچند سال کےبعد دلی شوق اورامنگ سےمسلمان ہوگیا۔انتقال نبوی ﷺ کےبعد مکہ مکرمہ میں اس نےاسلام کی حقانیت پرایسی زبردست تقریر کی تھی ،جو ہزاروں مسلمانوں کےلیے استحکام اور تازگی ایمان باعث ٹھہر ی تھی ، بےشک یہ اسلام کاعجیب اثر ہےکہ وہ جانی اوردلی دشمنوں کودم بھر میں اپنا فدائی بنا لیتا ہے۔
معاہد ہ کی آخری شرط کی نسبت قریش کاخیال تھا کہ اس شرط سے ڈر کرکوئی شخص آئندہ مسلمان نہ ہوگا،لیکن یہ شرط ابھی طے ہی ہوئی تھی اور عہد نامہ لکھا ہی جارہا تھا،دونوں طرف سےمعاہدہ دستخط بھی نہ ہوئے تھے کہ سہیل بن عمرو (جواہل مکہ کی طرف سےمعاہدہ پردستخط کرنے کااختیار ر کھتا تھا) کے سامنے ابوجندل اسی جلسہ میں پہنچ گیا اور ابوجندل مکہ میں مسلمان ہوگیا تھا ، قریش نے اسےقید کررکھا تھااور اب وہ موقع پاکر زنجروں سمیت ہی بھاگ کرلشکر اسلامی میں پہنچا تھا۔سہیل نےکہا کہ اسے ہمارے حوالہ کیا جائے۔
عہدنامہ کب واجب العمل ہوتا ہے : نبی ﷺ نےفرمایا کہ عہد نامے کےمکمل ہوجانے پراس کےخلاف نہ ہوگا ،یعنی تک عہد نامہ مکمل نہ ہوجائے ا س کی شرط پرعمل نہیں ہوسکتا ۔سہیل نے بگڑ کر کہا کہ تب ہم صلح ہی نہیں کرتے ۔نبی ﷺنےحکم دیااور ابوجندل قریش کےسپردکردیا گیا۔ قریش نےمسلمانوں کےکیمپ میں اس کی مشکیں باندھیں ،پاؤں میں زنجیر ڈالی اور کشاں کشاں لے گئے۔نبی ﷺ نےجاتے وقت اس قدر فرمادیا تھا کہ ابوجندل ! خداتیر ی کشائش کےلیے کوئی سبیل نکال دےگا۔
ابو جندل کی ذلت اورقریش کاظلم دیکھ کرمسلمانوں کےاندر جوش اورطیش توپیدا ہوا،مگر نبی ﷺ کاحکم سمجھ کرضبط وصبر کئے رہے۔ نبی ﷺ حدیبیہ ہی میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اسی (80) آدمی کوہ تنعیم سےصبح کےوقت جب مسلمانوں نماز میں مصروف تھے اس ارادے سے اترے کہ مسلمانوں کی نماز میں قتل کردیں یہ سب گرفتار کرلئے گئے اور آنحضر ت ﷺ نےانہیں ازراہ رحم دلی وعفو چھوڑ دیا۔
حملہ آور اعداء کومعافی : اسی واقعہ پر قرآن مجید میں اس آیت کانزول ہوا ۔ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ(سورۂ الفتح آیت: 23) خدا وہ ہے جس نے وادی مکہ میں تمہارے دشمنوں کےہاتھ تم سےروک دیئے اورتمہارے ہاتھ بھی (ان پرقابو پانے کےبعد )ان سےروک دیئے۔
الغرض یہ سفر بہت خیر وبرکت کاموجب ہوا۔ آنحضرت ﷺ نےمعاندین کےساتھ معاہدہ کرنے میں فیاضی ، حزم، دوربینی اورحملہ آور دشمنوں کی معافی میں عفو اورحمۃاللعالمینی کےانور کاظہور دکھایا، حدیبیہ ہی سے مدینہ منورہ کوواپس تشریف لے گئے ۔اسی معاہدہ کےبعد سورۃ الفتح کانزول حدیبیہ میں ہوا تھا۔ عمر فاروق نےپوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہ معاہدہ ہمارے لئے فتح ہے؟ فرمایا ہاں ! ابوجندل نےزندان مکہ میں پہنچ کردین حق کی تبلیغ شروع کردی، جوکوئی اس کی نگرانی پرمامور ہوتا، وہ اسے توحید کی خوبیاں سناتا، اللہ کی عظمت وجلالت بیان کرکے ایمان کی ہدایت کرتا۔ خدا کی قدرت کہ ابوجندل اپنے سچے ارادے اورسعی میں کامیاب ہوجاتا اور وہ شخص مسلمان ہوجاتا۔ قریش ا س دوسرے ایمان لانے والے کوبھی قید کردیتے ،اب یہ دونوں مل کر تبلیغ کاکا م اسی قید خانہ میں کرتے ۔ الغرض اس طرح ایک ابوجندل کےقید ہوکر مکہ پہنچ جانے کانتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کےاندر قریبا تین سواشخاص نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجے ،آنحضرت ﷺ نےابوبصیر کوان کے سپرد کردیا ۔ راستہ میں ابوبصیر نےان میں سے ایک کو دھوکا دے کر ماردیا، دو سرا نبی ﷺ کی خدمت میں اطلاع دینے کےلیے گیا۔اس کےپیچھے ہی ابوبصیر پہنچا،نبی ﷺ نےاسے فساد انگیز فرمایا اس عتاب سےخوف زدہ ہوکر وہاں سے بھی بھاگا۔ قریش نےابوجندل اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کومکہ سےنکال دیا ۔ابو جندل کوچونکہ مدینہ آنے کی اجازت نہ تھی،اس نےمکہ سےشام کےراستہ پرایک پہاڑی پرقبضہ کرلیا، جوقافلہ قریش کاآتا جاتا اسے لوٹ لیتا (کیونکہ قریش فریق جنگ تھے) ابوبصیر بھی اسی سےجلاملا۔
ایک دفعہ ابوالعاص بن ربیع کاقافلہ بھی شام سےآیا ۔ابو جندل وغیرہ ابوالعاص سےواقف تھے، سیدہ زینب بنت رسول ﷺ کااس سے نکاح ہوا تھا (گوابوالعاص کےمشرک رہنے سےافراق ہوچکا تھا) ابوجندل نےقافلہ لوٹ کیا۔ مگر کسی جان کانقصان نہ ہوا۔اس لیے کہ ابوالعاص ان میں تھا۔ابوالعاص وہاں سے سیدھا مدینہ آیا اور حضرت زینب ؓ کی وساطت سےماجرا کی اطلاع نبی ﷺ تک پہنچائی ۔نبی ﷺ نےمعاملہ صحابہ کےمشورہ پرچھوڑ دیا۔ صحابہ نےابوالعاص کی تائید میں فیصلہ کیا۔جب ابوجندل کواس فیصلہ کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے نےسارا اسباب رسی اورمہار شتر تک ابوالعاص کوواپس کردیا، ابوالعاص مکہ پہنچا ۔سب لوگوں کاروپیہ پیسہ اسباب اداکیا۔پھرمناوی کرائی کہ اگر کسی کا کوئی حق مجھ پررہ گیا ہوتو بتادے۔سب نے کہا توبڑا امین ہے۔ابوالعاص نےکہااب میں جاتا ہوں اورمسلمان ہوتاہوں۔مجھے ڈر تھاکہ اگر اس سے پہلے ہوجاتا مسلمان ہوجاتا تولوگ الزام لگاتے کہ ہمارا مال مارکر مسلمان ہوگیا ہے۔نبی ﷺ نے ابوجندل اورا س کےساتھیوں کوبھی اب مدینہ منورہ بلا لیا تھا تاکہ وہ قریش کونہ لوٹ سکیں۔اب قریش گھبرائے کہ ہم نےکیوں عہدنامےمیں ان ایمان والوں کوواپس لینے کی شرط درج کرائی پھر انہوں نےمکہ کےچند منتخب شخصوں کونبی ﷺ کےخدمت میں بھیجا کہ ہم عہد نامہ کی اس شرط سےدستبردار ہوتےہیں۔ان نومسلموں کواپنے پاس واپس بلا لیجئے۔نبی ﷺ نےمعاہدہ کےخلاف کرنا ناپسند نہ فرمایا۔اس وقت عام مسلمان بھی سمجھ گئے کہ معاہدہ کی وہ شرط جوبظاہر ہم کو ناگوار تھی اس کامنظو رکرلینا کس قدر مفید ثابت ہوا۔
ابوجندل کےحال سےکیا نتیجہ حاصل ہوتاہے!
ابوجندل کےقصہ سے ہرشخص جوسر میں دماغ اوردماغ میں فہم کا مادہ رکھتاہے۔وہ سمجھ سکتاہے کہ اسلام کی صداقت کیسی الہیٰ طاقت کےساتھ پھیل رہی تھی اور کس طرح طالبان حق کےدل میں قبضہ کررہی تھی کہ وطن کی دوری ، اقارب کی جدائی ،قید ،ذلت،بھوک ،پیاس ،خوف وطمع، تلوار ،پھانسی غرض دنیا کی کو ئی چیز اورکوئی جذبہ ان کو اسلام سے نہ روک سکتا تھا۔
صلح کاحقیقی فائدہ : امام زہری نےمعاہدہ کی دفعہ او ل کے متعلق تحریر فرمایا ہےکہ جانبین سےآمد ورفت کی روک ٹوک کےاٹھ جانے سے یہ فائدہ ہواکہ لوگ مسلمانوں سےملنے جلنےلگے اوراس طرح ان کواسلام کی حقیقت اورصداقت معلوم کرنے کے مواقع ملےاور اسی وجہ سے اس سال اتنے زیادہ لوگوں نے اسلا م قبول کیا کہ اس سےپیشتر کسی سال اتنے مسلمان نہ ہوئے تھے۔
مسلمانوں کاطواف کعبہ کےلیےجانا اوراس کےنتائج (7ہجری مقدس 9) معاہد حدیبیہ کی شرط دوم کی رو سے مسلمان اس سال مکہ پہنچ کرعمرہ کرنےکا حق رکھتے تھے۔اس لیے اللہ کارسول دوہزار صحابہ کےساتھ لےکر مکہ پہنچا ۔ مکہ والوں نے نبی ﷺ کو مکہ آنے سےتونہ روکا لیکن خود گھروں کومقفل کرکے کوہ ابو قبیس کی چوٹی پرجس کےنیچے مکہ آباد ہےچلے گئے، پہاڑ پرسے مسلمانوں کے کام دیکھتے رہے۔خدا کانبی ﷺ تین دن تک کےلیے مکہ میں رہا اورپھر ساری جمعیت کےساتھ مدینہ کوواپس چلا گیا۔ان منکروں پرمسلمانوں کےسچے جوش، سادہ اورمؤثر طریق عبادت کا اوران کی اعلیٰ دیانت وامانت کا( کہ خالی شدہ شہر میں کسی کاایک پائی کابھی نقصان نہ ہوا تھا) عجیب اثر ہوا،جس نےسینکڑوں کواسلام کی طرف مائل کردیا۔
جنگ خیبر ۔ (محرم 7ھ) : خیبر مدینہ سےشام کی جانب تین منزل پر ایک مقام کانام ہے،یہ یہودیوں کی خالص آبادی کاقصبہ تھا۔آبادی کےگردا گرد مستحکم قلعے بنائے ہوئےتھے۔نبی ﷺ کوسفر حدیبیہ سےپہنچے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن (ایک ماہ سےکم ) ہوئے تھےکہ یہ سننے میں آیا کہ خیبر کےیہودی پھرمدینہ پرحملہ کرنے والے ہیں اورجنگ احزاب کی ناکامی کابدلہ لینے اوراپنی کھوئی ہوئی جنگی عز ت وقوت کاملک بھر میں بحال کرنے کےلیے ایک خونخوار جنگ کی تیار ی کرچکے ہیں۔انہوں نے قبیلہ غطفان کےچار ہزار جنگجو بہادروں کوبھی اپنےساتھ ملالیا تھا اور معاہدہ یہ تھاکہ اگر مدینہ فتح ہوگیا تو پیدا وار خیبر کانصف حصہ ہمیشہ بنو غطفان کودیتے رہیں گے۔مسلمان محاصرہ کی سختی کوجوپچھلے سال ہی جنگ احزاب میں انہیں اٹھانی پڑی تھی، ہنوز نہیں بھولے تھے۔اس لئے سب مسلمانوں کااس امر پراتفاق ہوگیا کہ حملہ آور دشمن کوآگے بڑھ کرلینا چاہیے ۔
نبی ﷺ نےاس غزوہ میں ضرب انہی صحابہ کوہم رکاب چلنے کی اجازت دی تھی جو لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبھم کی بشارت سےممتاز تھے اورجن کووعد کم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا ۔کا مژدہ مل چکا تھا ۔ان کی تعداد چودہ سوتھی جن میں سےدو سواسپ سوار تھے۔
مقدمہ لشکر کےسردار عکاشہ بن محصن اسدی اورمیمنہ لشکر کےسردار عمربن الخطاب تھے۔سردار میسرہ کوئی او ر صحابی تھے ۔صحابیہ عورتیں بھی شامل تھیں،جو بیماروں اورزخمیوں کی خبر گیری اورتیمارداری کےلیے ساتھ ہولی تھیں۔لشکر اسلام آبادی خیبر کےمتصل رات کےوقت پہنچ گیا تھا لیکن نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ لڑائی رات کوشروع نہ کرتے تھے اورنہ شب خون ڈالا کرتے تھے۔اس لیے لشکر اسلام نےمیدان میں ڈیرے ڈال دئیے ۔معرکہ کےلیے اس مقام کاانتخاب مرد جنگ آزما خباب بن المنذر نے کیا تھا۔یہ میدان اہل خیبر اور بنو غطفان کےدرمیان پڑتاتھا۔ اس تدبیر کافائدہ یہ ہواکہ جب بنو غطفان یہودیان خیبر کی مدد کےلیے نکلے توانہوں نے لشکر اسلام کوسدراہ پایا اوراس لیے چپ چاپ اپنے گھروں کوواپس چلے گئے ۔
نبی ﷺ نے حکم دیا تھا کہ لشکر کابڑا کیمپ اسی جگہ رہے گااورحملہ آور فوج کےدستے کیمپ سےجایا کریں گے۔لشکر کےاندر فوراً مسجد تیار کرلی گئی تھی اورجنگ کےدوش بدوش تبلیغ کاسلسلہ بھی جاری فرمادیا گیاتھا۔
حضرت عثمان ۔۔۔۔۔۔ اس کیمپ کےذمہ دار افسر تھے۔قصبہ خیبر کےقلعے جوآبادی کےدائیں بائیں واقع تھے شمار میں د س تھے،جس کےاندر دس ہزار جنگی مرد رہتے تھے، ہم ان کوتین حصوں پرتقسیم کرسکتے ہیں (1) قلعہ ناعم (2) قلعہ نطاۃ (3)حصن صعب بن معاذ ۔یہ چاروں حصوں نطاۃ کےنام سے نامزد تھے(4) حصن الزبیر (5) حصن شن (6) حصن البر ۔یہ تینوں حصوں شن کانام سےنامزد تھے۔(7) حصن ابی (8) حصن قموص طبر ی (9) حصن وطیح (10) حصن سلالم۔جسے حصن بنی الحقیق بھی کہتے ہیں ۔یہ تینوں حصوں کتبیہ کےنام سے نامزد تھے۔
محمود بن مسلمہ کوحملہ آور فوج کا سردار بنایا گیااور انہوں نے قلعہ نطاۃ پرجنگ کاآغاز کردیا ۔نبی ﷺ خود بھی حملہ آور فوج میں شامل ہوئے تھے، باقی ماندہ فوجی کیمپ زیر نگرانی حضرت عثمان بن عفان تھا۔
محمود بن مسلمہ پانچ روز تک برابر حملہ کرتے رہے لیکن قلعہ فتح نہ ہوا ، پانچویں یا چھٹے روز کا ۔۔۔۔۔ ذکرہےکہ محمود میدان جنگ کی گرمی سےذرا سستانےکےلیے پائیں قلعہ دیوار کےسایہ میں لیٹ گئے۔ کنانہ بن الحقیق یہودی نےانہیں غافل دیکھ کر ایک پتھر ان کے سرپر دےمارا جس سےوہ شہید ہوگئے ۔فوج کی کمان محمد بن مسلمہ کےبھائی نےسنبھال لی اور شام تک کمال شجاعت ودلاوری سےلڑتے رہے۔محمد بن مسلمہ کی رائے ہوئی کہ یہودیوں کےنخلستان کاکاٹا جائے کیونکہ ان لوگوں کو ایک ایک درخت ایک ایک بچہ کےبرابر پیارا ہے۔اس تدبیر سےاہل قلعہ پراثر ڈالا جاسکے گا۔ اس تدبیر پرعمل شروع ہوگیا تھاکہ ابوبکر صدیق نےنبی ﷺ کےحضور میں حاضر ہوکر التماس کیاکہ یہ علاقہ یقینا مسلمانوں کےہاتھ پرفتح ہونےوالا ہےپھر ہم سے اپنے ہاتھوں کیوں خراب کریں۔نبیﷺ نےاس رائے کوپسند فرمایا اورابن مسلمہ کےپاس نخلستان کاٹنے کاحکم امتناعی بھیج دیا ۔شام کومحمد بن مسلمہ نےاپنے بھائی کی مظلومانہ شہادت کا قصہ خود ہی نبی ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا ، نبی ﷺ نےفرمایا لاعطین (اولیاتین)الرایۃ غدا رجل یحبہ اللہ ورسولہ یفتح اللہ علیہ کل فوج کانشان اس شخص کودیا جائے گا( یاوہ شخص نشان ہاتھ میں لے گا) جس سے خداتعالیٰ محبت کرتےہیں اورخدا تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔یہ ایسی تعریف تھی ، جسے سن کرفوج کےبڑے بڑے بہادر اگلے دن کی کمان ملنے کے آرزو مند ہوگئے ۔اس رات پاسبانی لشکر کی خدمت حضرت عمر بن الخطاب کےسپرد تھی۔انہوں نے گرداوری کرتے ہوئےایک یہودی کوگرفتار کیااور اسی وقت نبی ﷺ کی خدمت میں لائے ۔آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے ۔آنحضرت ﷺ نماز تہجد میں تھے، جب فارغ ہوئے تویہودی سےگفتکوفرمائی ۔ یہودی نےکہا کہ اگر اسےاور اس کی زن وبچہ کوجو قلعہ کےاندر ہیں امان عطا ہوتو وہ بہت سےجنگی راز بتا سکتا ہے۔یہ وعدہ اس سےکرلیا گیا۔ یہودی نےبتایا کہ نطاۃ کےیہودی آج کی رات اپنے زن وبچہ کو قلعہ شن میں بھیج رہے ہیں اورنقدو جنس کوقلعہ کوقلعہ نطاۃ کےاندر دفن کررہےہیں ۔مجھے وہ مقام معلوم ہے ۔جب مسلمان قلعہ نطاۃ لےلیں گےتومیں وہ جگہ بتا دوگا۔ بتایا کہ قلعہ شن کےتہ خانوں میں قلعہ شکنی کےبہت سےآلات منجنیق وغیرہ موجود ہیں۔جب مسلمان قلعہ شن فتح کرلیں گےتومیں وہ تہ خانے بھی سب بتادوں کا۔ صبح ہوئی تونبی کریمﷺ نےحضرت علی مرتضیٰ کویاد فرمایا۔ لوگوں نےعرض کیا کہ انہیں آشوب چشم ہےاور آنکھوں میں درد بھی ہوتا رہا ہے۔حضرت علی آگئے تونبی ﷺ نےلب مبارک جناب علی مرتضیٰ کوآنکھوں کولگایا دیا۔ اسی وقت آنکھیں کھل گئیں نہ آشوب کی سرخی باقی تھی اور نہ درد کی تکلیف ۔ پھر فرمایا علی! جاؤ راہ خدا میں جہاد کرو، پہلے اسلام کی دعوت دو، بعد میں جنگ کرو۔ علی ! اگر تمہارے ہاتھ پر ایک شخص بھی مسلمان ہوجائے تو یہ کام بھاری غنیمتوں کےحاصل ہوجانے سے بہتر ہوگا۔
حضرت علی مرتضی نے قلعہ ناعم پر جنگ کی طرح ڈالی ۔مقابلہ کےلیے قلعہ کامشہور سردار مرحب میدان میں نکلا۔یہ اپنے آپ کوہزاروں بہادروں کےبرابر کہاکرتا تھا۔ اس نے آتے ہی یہ رجز پڑھنا شروع کردیا۔قد علمت خیبر انی مرحب۔شاکی السلاح بطل مجرب ۔اذ القلوب اقبلت تلهب ! ۔’’ خیبر جانتا ہےکہ میں ہتھیار سجانے والا بہادر تجربہ کامرحب ہوں۔جب لوگوں کےہوش مارے جاتے ہیں ، تو میں بہادر ی دکھاتا ہوں،،
اس مقابلہ کےلیے عامر بن الاکوع نکلے ۔وہ بھی اپنا رجز پڑھتے جاتے تھے۔
قد علمت خیبر انی عامر ۔شاکی السلاح بطل مقائر۔ خیبر جانتا ہے کہ ہتھیار چلانےمیں استاد نبردآزما تلخ ہوں۔ میرا نا عامر ہے۔
مرحب نےان پرتلوار سےوار کیا۔ عامر نےاسے ڈھال پرروکا اورمرحب کےحصہ زیریں وار چلایا۔ مگر ان کی تلوار جو لمبائی میں چھوٹی تھی۔ان ہی کےگھنٹے پرلگی ، جس کےصدمے سےبالآخر شہید ہوگئے۔
پھر حضرت علی مرتضیٰ نکلے۔ رجز حیدری سےمیدان گونج اٹھا۔
انا الذى سمتنى امى حيدره- اكيلكم بالسيف كيل السندره –كليت باغات شديدقسورة ’’ میں ہوں کہ میری ماں نےمیرا نام شیرغضبناک رکھاہے،میں اپنی تلوار کی سخاوت سےتمہیں بڑے بڑے پیمانے عطا کروں گا۔شیرببرحملہ آور ہنرمیدان ہوں۔،،
حضرت علی مرتضیٰ نےایک ہی ہاتھ تلوار کاایسا مارا کہ مرحب کےخود آہنی کوکاٹتا ہواعمامہ کوقطع کرتاسرکےدو ٹکڑے بناتا ہواگردن تک جاپہنچا ۔مرحب کابھائی یا سرنکلا اسے زبیر بن العوام نےخاک میں سلادیا۔
اس کےبعد حضرت علی مرتضی کےعام حملہ سےقلعہ ناعم فتح ہوگیا۔اسی روز قلعہ صعب کوحضرت حباب بن المنذر نے محاصرہ سے تیسرے دن بعد فتح کرلیا۔حبات بن المنذر انصاری السلمی ابوعمر وکنیت اور ذوالرائے لقب تھا۔غزوہ بدر میں 33سال کےتھے، میدان جنگ بدر کےمتعلق بھی آنحضرت ﷺ نےان کےرائے کوپسند فرمایا تھا۔حضرت عمر کی خلافت میں انتقال فرمایا،قلعہ صعب سےمسلمانوں کوجو ،کھجور ، چھوہارے ،مکھن ،روغن ،زیتون ، چربی اورپارچہ جات کی مقدارکثیر ملی۔فوج میں قلت رسد سے جوتکلیف ہورہی تھی و ہ رفع ہوگئی۔اس قلعہ کےآلات قلعہ شکن بھی برآمد ہوئے، جس کی خبر یہودی جاسوس دے چکا تھا۔اس سے اگلے روز قلعہ نطاۃ فتح ہوگیا۔اب قلعہ الزبیر جوایک ایک پہاڑی ٹیلہ پرواقعہ تھا اوراپنے بانی زبیر کےنام موسوم تھا، پرحملہ کیاگیا۔دوروز کےبعد ایک یہودی لشکر اسلام میں آیا ۔ اس نے کہا یہ قلعہ تومہینہ تک بھی تم فتح نہ کرسکو گےمیں ایک راز بتاتا ہوں۔اس قلعہ کےاندر پانی زیر زمین نالہ کی راہ سےجاتا ہےاگر پانی کاراستہ بند کردیا جائے تو قتح ممکن ہے۔مسلمانوں نے پانی پرقبضہ کرلیا۔اب اہل قلعہ، قلعہ سے نکل کھلے میدان میں آکر لڑےاورمسلمانوں نےانہیں شکست دےکر قلعہ کوفتح کرلیا۔
پھر حصن ابی پرحملہ شروع ہوا۔اس قلعہ والوں نے سخت مدافعت کی ، ان میں سےایک شخص جس کانام غزوان تھا، مبارزت کےلیے باہر نکلا۔حباب مقابلہ کوگئے اس کا بازو راست کٹ گیا۔وہ قلعہ کوبھاگا،حباب نےتعاقب کیااور اس کی رگ شاشنہ کوبھی کاٹ ڈالا ، وہ گرپڑا اورپھر قتل کیا گیا۔
قلعہ سےایک اور یہودی نکلا، جس کا مقابلہ ایک مسلمان نےکیا۔مگر مسلمان اس کےہاتھ سےشہید ہوگیا۔اب ابودجانہ نکلے ۔انہوں نے جاتے ہی اس کےہاتھ پاؤں کاٹ دئیے اورپھرقتل کرڈالا۔
یہود پرعت طاری ہوگیا اورباہر نکلنے سےرک گئے۔ابودجانہ آگے بڑھے۔مسلمانوں نے ان کاساتھ دیا۔تکبیر کہتے ہوئے قلعہ کی دیوار پرچڑھے ۔قلعہ فتح کرلیا۔اہل قلعہ بھاگ گئے اس قلعہ سےبکریاں اوراکپڑے اوراسباب بہت ساملا۔اب مسلمانوں نےحصن البربرحملہ کردیا۔یہاں کےقلعہ نشینوں نے مسلمانوں پراتنے تیربرسائے اوراتنے پتھر گرائے کہ مسلمانوں کوبھی مقابلہ میں منجنیق کااستعال کرنا پڑا۔ منجنیق وہی تھے جوحصن صعب سےغنیمت میں ملے تھے۔ منجنیقوں سےقلعہ کی دیواریں گرائی گئیں اورقعلہ فتح ہوگیا۔(اس عظیم فتح کےبعد بہت سے اکابر نےاسلام قبول کرلیا) انہیں ایمان لانے والوں میں خالد بن ولید تھے، جوجنگ احد میں کافروں کارسالہ کےافسر تھےاور مسلمانوں کوانہوں نے سخت نقصان پہنچایا۔یہی وہ خالد ہیں جنہوں نےاسلامی جنرل ہونے کی حیثیت میں مسلمہ کذاب کوشکست دی، تمام عراق اورنصف شام کاملک فتح کیا تھا۔مسلمانوں کےایسے جانی دشمن اورایسے جانباز اعلیٰ سپاہی کاخود بخود مسلمان ہوجانا اسلام کی سچائی کامعجزہ ہے۔
عمرو بن عاص کااسلام لانا 8 ھ :
انہی اسلام لانے والوں میں عمروبن العاص تھے،قریش نے ان ہی کو مسلمانوں سے عداوت اوربیرونی معاملات میں اعلیٰ قابلیت رکھنے کی وجہ سے اس ڈیپوپیشن کاسردار بنایا تھاجو شاہ حبش کاپاس گیا تھا تاکہ وہ حبش میں گئے ہوئے مسلمانوں کوقریش کےحوالے کردے۔انہیں عمروبن عاص نےحضرت عمر کےزمانہ خلافت میں ملک مصرکوفتح کیا تھا۔ایسے مدبروماہر سیاست اورفاتح ممالک کامسلمان ہوجانا بھی اسلام کااعجاز ہے۔
انہی اسلام لانے والوں میں عثمان بن طلحہ بھی تھے۔جوکعبہ کےاعلیٰ مہتمم وکلید بردار تھےجب یہ نامی سردار (جن کی شرافت حسب ونسب سارے عرب میں مسلمہ تھی)نبی ﷺ کی خدمت میں جاپہنچا تونبی ﷺ نےفرمایا کہ آج مکہ نے جگر کےدوٹکڑے ہم کو دے ڈالے ۔(منتخب از رحمۃاللعالمین ۔جلد اول )
قارئین کرام بخاری نےبیشتر احادیث کی روایت کرنے والی خاتون ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کانام نامی واسم گرامی پڑھاہوگامگر ایسے بہت کم ہوں گے جوحضرت صدیقہ کےحالات سےوقفیت رکھتے ہوں گے اس لیے مناسب معلوم ہواکہ حضرت صدیقہ ؓ کےکچھ حالات زندگی درج کردئیے جائین اللہ پاک ایمان والوں کی ماں رسول کریم ﷺ کی حرم محترم حضرت عائشہ ؓ کی روح پاک پرہماری طرف سے بےشمار سلام اوررحمتیں نازل فرمائے ۔آمین ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا :
عائشہ بن ابوبکر صدیق ؓ عبداللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمربن کعب بن سعد ابن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن قالب بن بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ۔
ننہال کی طرف سےعائشہ ؓ بنت ام ہارون بنت عامر بن عویمر بن عبدالشمس بن عتاب بن اذنیہ ابن سبیع بن وہمان بن حارث ین غنم بن مالک بن کنانہ۔
آپ کانسب نامہ حضور سرور کائنات سے با پ کی طرف سےآٹھویں اورماں کی طرف سے ہارہویں پشت میں کنانہ سے جاملتا ہےاس طرح سے آپ باپ کی طرف سے قریشی اورماں کی طرف سے کنانی ہیں۔
لقب وخطاب : آ پ کانام عائشہ ، لقب حمیر اور صدیقہ اورخطاب ام المؤمنین ،کنیت ام عبداللہ ۔ حضرت عائشہ ؓ کےہاں کوئی اولاد نہ ہوئی جس کےنام سےوہ اپنی کنیت مقرر کرتیں اورکنیت سےکسی کاپکاراجانا عرب میں چونکہ عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی ، اس لیے آپ نےحضور ﷺ کےمشورہ سےاپنی بہن اسماء کےبیٹے عبداللہ بن زبیر کےنام پراپنی کنیت ام عبداللہ رکھ لی تھی۔
تاریخ ولادت: آپ کی ولادت کی صحیح تاریخ تومعلوم نہیں، لیکن اس قدر ثابت ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت کےپانچویں اور ہجرت نبوی سےنوسال پہلے پیداہوئی تھیں۔کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہےکہ ہجرت سےتین سال پہلے جب آپ کا حضور سرور کائنات سےنکاح ہوا تواس وقت آ پ کی عمر چھ سال تھی اورمدینہ منورہ پہنچ کر 1ھ میں آپ کاشایہ نبوی میں داخل ہوئیں توآپ کی عمر نوسال کی تھی۔
رضاعت : شرفائے عرب کےدشتور کےموافق آ پ کو وائل کی بیوی نےدودھ پلایاتھا۔(اسدالغابہ میں وائل کی ماں لکھا ہے لیکن صحیح بخاری باب الرضاعت میں بیو ی لکھا ہے اوریہی صحیح ہے) ایک دفعہ وائل کےبھائی افلح یعنی آپ کےرضاعی چچا آپ سے ملنے کوآئے اور انہوں نے اندر آنے اجازت مانگی، حضر ت عائشہ ؓ نےفرمایا کہ جب تک میں رسول اللہ ﷺ سےنہ پوچھ لوں ،اجازت نہیں دے سکتی ۔جس وقت حضورﷺ گھر میں تشریف لائے توآپ نےان سے فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں حضرت عائشہ ؓ نےعرض کیاکہ حضور ﷺ ،دودھ توعورت پلاتی ہےمرد نہیں پلاتا۔حضور ﷺ نےفرمایا وہ تمہارے چچا ہیں۔تمہارے پاس آسکتےہیں۔
بچپن : آپ کے والدین آپ کی پیدائش سےپیشتر ہی مسلمان ہوچکے تھے۔اس لیے دنیا میں آنکھ ہی توحید کی صداان کے کان میں پہنچنے لگی اور شرک وکفر کی آلودگی سے بالکل پاک رہیں۔ہونہار بروا کےچکنے چکنے پات ، آپ بچپن ہی میں فہم وذکا،قدوقامت اورصورت وسیرت میں ممتاز تھیں۔اعضاء مضبوط اورجسم توانا تھا، عام بچوں کی طرح بچپن میں حضرت عائشہ ؓ بھی کھیل کو د کی بہت دلدادہ تھیں،گڑیوں سےکھیلنا اورجھولے جھولنا آپ کےدو مرغوب ترین کھیل تھے، محلّہ کی تمام لڑکیان آپ کےگھر میں جمع ہوجاتیں اورکھیل کود میں ان کےاشاروں پر چلتیں ۔وہ آپ کےسامنے ایسی مرعوب ومؤدب رہتیں ،گویا کہ حضرت عائشہ ؓ ان کی سردار ہیں۔والدین اس چھوٹی سی عمر میں آپ کی فراست ورعب دیکھ کر خوش ہوتے اور انہیں بعض اوقات خیال گزرتا کہ یہ کسی دن ضرور معزز وممتاز ہوگی سچ ہے۔
بالا ئے سرش زہو شمندی مے نافت ستارہ بلندی
آپ کی ذہانت کا یہ حال تھا کہ بچپن کی ذرا ذرا سی باتیں بتفصیل آپ کویاد تھیں اورانہیں اس طرح بیان فرما دیا کرتی تھیں گویا کہ ابھی سامنے واقع ہورہی تھیں۔
شادی: نبوت کےدسویں سال ماہ رمضان المبارک میں حضرت خدیجہ الکبریٰ 65سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں ۔ان کی جدائی کا حضور ﷺ کی سخت صدمہ ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ کفار مکہ حضور ﷺ کوستانے میں کوئی وقیقہ اٹھانہ رکھتےتھے۔ان کی کلفتوں اور اذیتوں کی بھلانے اوردل وجان کوتسکین دینے والی ،تنہائی کی مونس بیوی جب دینا سےرخصت ہوگئیں توحضور ﷺ بےحد ملول رہنے لگے۔آپ کومغموم دیکھ کر مشہور صحابی عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم نےایک دن عرض کیا یارسو ل اللہ ! حضور ﷺ کسی عورت سےنکاح کرلیجیے ۔حضور ﷺ نےفرمایا کس عورت سے؟ عرض کیا،کنواری اوربیوہ دونوں موجود ہیں ،جس سےحکم ہو،اس کےمتعلق سلسلہ جنبانی کی جائے ۔فرمایاکون کون؟ عرض کیابیو ہ توسودہ بنت زمعہ ہیں ۔جوحضور پرایمان لاچکی ہیں اور کنواری حضرت ابوبکر صدیق کی ، جو حضور ﷺ کےنزدیک سب زیادہ محبوب ہیں، بیٹی عائشہ ہیں۔حضور ﷺ نےفرمایا بہتر ان دونوں کی بابت سلسلہ جنبانی کرو۔حضور ﷺ کی رضا حاصل کرکےخولہ خوشی خوشی حضرت ابوبکر کےگھر گئیں اورام رومان سےاس کا تذکرہ کیا۔ام رومان نےکہا عائشہ کےوالد کوآلینےدو ، وہ باہر گئے ہوئے ہیں۔تھوڑے دیر بعد جب حضرت ابوبکر گھرآئے تویہ مژدہ آپ کو سنایا گیا۔انہوں نے فرمایا اگر حضور کی مرضی ہےتواس میں مجھے کیاعذر ہے،لیکن حضور ﷺ تومیرے بھائی ہیں، عائشہ کانکاح حضور ﷺ سےکیونکہ ہوتا ہے؟ (زمانہ جاہلیت میں عرب میں دستور تھاکہ جس طرح سگےبھائی کی لڑکی سےنکاح جائزنہ تھا اسی طرح منہ بولے بھائی کی لڑکی کوبھی اپنے لیےحرام تھے)
خولہ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیاکہ ابوبکر نےیہ اعتراض کیاہے،حضور ﷺ نےفرمایا کہ ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں نہ کہ سگےبھائی اس لیے ان کی لڑکی سےنکاح جائز ہے۔وہاں کیا عذر تھا، حضرت ابوبکر نےسرتسلیم خم کردیا۔احادیث میں ہےکہ نکاح سےپہلے حضورﷺ نےخواب میں دیکھاتھا کہ ایک فرشتہ ریشم کےکپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز حضور ﷺ کےسامنے پیش کررہا ہے،حضو ر ﷺ نےپوچھا کیا ہے؟ اس نےجواب دیاکہ یہ حضور کی بیوی ہیں۔ حضور ﷺ نے کھول کر دیکھا توعائشہ رضی للہ عنہا تھیں۔
نکاح کےوقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر 6 سال تھی ۔نکاح رسم بڑے طریق سے عمل میں آئی ۔وہ اپنی سن سہلیوں کےساتھ کھیل رہی تھیں کہ ان کی انا آئی اور ان کولے گئی۔ان کےوالد نےآکر نکاح پڑھایا دیا۔پانچ سو درہم مہرمقررہوا۔حضرت عائشہ ؓ خود فرمایا کرتی تھیں کہ میرانکاح ہوگیا اورمجھےخبر تک نہ تھی،آخرآہستہ آہستہ میری والدہ نےمجھے اس امر کی اطلاع دے دی ۔
فضائل: آ پ میں چند ایک ایسی خصوصیتیں تھیں، جودوسری امہات المؤمنین کوحاصل نہ تھیں اوروہ یہ ہیں:
(1) حضور ﷺ کی صرف آپ ہی ایک ایسی بیوی تھیں ، جوکنواری حضور ﷺکےنکاح میں آئیں ،فرشتے نےآپ کی صو رت خواب میں حضورﷺ کے سامنے پیش کی
(2) آپ پیدائش ہی سے شرک وکفر کی آلودگی سے پاک رہیں
(3) آپ کےوالدین مہاجر تھے۔
(4) آپ کی برأت میں قرآن شریف کی آیات نازل ہوئیں
(5) آپ ہی کےلحاف میں حضور ﷺ کو کئی باروحی ہوئی، کسی اوربیوی کےلحاف میں نہیں ہوئی
(6) آپ ہی حجرے میں اور آپ ہی کےآغوش میں سررکھے ہوےحضورﷺ نےوفات پائی اوروہیں دفن ہوئے ۔
وفات : 85 ہجری مقدس ماہ رمضان میں آپ کی طبیعت علیل ہوئی اورچند روز تک بیمار رہیں، وصیت کی کہ مجھے حضورﷺ کےساتھ اس حجرہ میں دفن نہ کیجیو ،بلکہ دیگرازواج النبی کےساتھ مجھ کوبھی جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔رات ہی کودفن کردی جاؤں اورصبح کاانتظار نہ کیا جائے۔17 رمضان المبارک کی شب کووفات پائی،جنازہ حسب وصیت را ت ہی کےوقت اٹھایا گیا۔لیکن مردوں اورعورتوں کااتنا ہجوم تھاکہ رات کےوقت کبھی نہیں دیکھا گیا۔حضرت ابوہریرہ نےجوان دنوں حاکم مدینہ تھے۔نماز جنازہ پڑھائی ۔بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا اور وہ شمع رشد وہدایت دنیا کی نظروں سے پنہاں ہوگئی ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
ابوہریرہ (ابوہریرہﷺ :اپنی کنیت ہی سے ایسے مشہور ہوئے کہ ان کا صحیح نام دریافت کرنامشکل ہے،کوئی کہتا ہےعبداللہ بن عامر نام تھا۔کوئی کہتا ہےعمیر بن عامر،کوئی کہتاہےبریربن عشرقہ ، کوئی کہتا ہےسکین بن دومہ ،کوئی کہتا ہےعبداللہ بن عبدشمس ھ،کوئی کہتاہےعامر ،کوئی کہتاہے عبدنہم،کوئی کہتاہے عبدغنم۔کوئی کہتا ہےعبدشمس ،کوئی کہتاہے عبدعمروبن غنیم ،کوئی کہتا ہےمردوس بن عامر۔ابوعامر کہتے ہیں کہ جاہلیت میں ان میں سے کوئی نام ہوگا۔اسلامی نام عبداللہ یاعبدالرحمن ہے۔ازدی دوسی ہیں،آپ کےپاس ایک چھوٹی سی بلی تھی۔جس کو ساتھ رکھتے تھےاس لیے کنیت ابوہریرہ ہوگئی۔جنگ خیبر کےزمانہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لائے۔پھر ہر وقت حضور ﷺ کی خدمت میں رہنے لگے۔سب سے زیادہ حدیثیں انہی کی روایت کردہ ہیں۔57ھ یا 58ھ یا 59ھ میں فوت ہوئے۔(ماخوذ)
عامرکےلیے جو لفظ آپ نے استعمال فرمائے وہ ان کی شہادت کی پیش گوئی تھی، کیونکہ جس کےلیے آپ لفظ ’’برحمۃ اللہ ،، فرمادیتے وہ ضرور شہید ہوجاتا یہ آپ کا ایک معجزہ تھا۔اسی سےلوگوں نے لفظ مرحوم نکالا ہے،جو فوت شدہ مسلمانوں پربولا جاتاہے اورروایت میں حدی خوانی اوررجز وغیرہ کا ذکر ہے،باب سےیہی مناسبت ہے۔اشعار مذکورہ کا ترجمہ حضرت مولاناوحید الزمان مرحوم کےلفظوں میں یہ ہے۔
گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شہ عالی صفات ! تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اورنہ دیتے ہم زکوۃ
تجھ پہ صدقے جب تک دنیا میں ہم زندہ رہیں بخش دے ہم کو، لڑائی میں عطا فرماثبات
اپنی رحمت ہم پہ نازل کرشہ والا صفات جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی صفات
چیخ چلا کرانہوں نےہم سےچاہی ہےنجات چیخ چلا کرانہوں نےہم سے چاہی نجات
حدی ایک خاص لہجہ کاگانا جس کوسن کر تھکا ہوااونٹ تازہ دم ہوکر مست ہوجاتا ہے (اکمال ،صفحہ : 468 ) اس سے رزمیہ نظموں کاجواز نکلتاہے۔
یہاں مذکورہ احادیث میں کچھ جنگ خیبر کےواقعات بیان کئےگئے ہیں اوریہ ہمارے محترم کاتب صاحب کی مہربانی ہےکہ انہوں نے پچھلے صفحات میں اردو کو اتنا خفی کردیا کہ صفحات کےمطابق عربی اردو میں کافی تفاوت واقع ہوگیا اوریہ آخری صفحات خالی رہ گئے یہاں مرقومہ احادیث کا ترجمہ پچھلے صفحات پرچلا گیا۔امید ہےکہ اس سلسلہ میں قارئین کرام ہم کو معذور تصور فرماتے ہوئے ان خالی صفحات پرجنگ خیبر کی تفصیلات معلوم کرکے محفوظ ہوں گے جنگ خیبر حدیبیہ کےبعد واقع ہوئی۔جس کےموقعہ پر اللہ پاک نے آیت وعدکم اللہ مغانم کثیرۃ (الفتح: 20) ناز ل فرماکربعد کی ہونے والی فتوحات پراشارہ فرمادیا اس لیے مناسب ہوگا کہ صلح حدیبیہ ہی سے آپ مطالعہ فرما کرجنگ خیبر کی تفصیلات معلوم کریں یہ مذکورہ ذیل تفصیلات ہمارے بزرگ ترین استاذحضرت قاضی سلیمان صاحب سلمان � کی قلم حقیقت رقم سے معطالعہ فرمارہے ہیں۔حضرت مرحوم یوں شروع فرمارہےہیں:
صلح حدیبیہ ( 6 ہجری مقدس ) اس سال نبی ﷺ نےاپنا ایک خواب مسلمانوں کوسنایا فرمایا ’’میں نےدیکھا گویا میں اور سلمان مکہ پہنچ گئے ہیں اوربیت اللہ کا طواف کررہے ہیں ،، اس خواب کےسننے سے غریب الوطن مسلمانوں کواس شوق نےجو بیت اللہ کےطواف کاان کےدل میں تھا بےچین کردیا اورانہوں نے اسی سال نبی ﷺ کوسفر مکہ کےلیے آمادہ کرلیا ،مدینہ سےمسلمانوں نےسامان جنگ ساتھ نہیں لیا ۔بلکہ قربانی کےاونٹ ساتھ لئے اورسفر بھی ذیقعدہ کےمہینہ میں کیا جس میں عرب قدیم رواج کی پابندی سےجنگ ہرگز نہ کیا کرتے تھےاورجس میں ہر ایک دشمن کوبلا روک ٹوک مکہ آنے کی اجازت ہواکرتی تھی ۔جب مکہ 19 میل رہ گیا تونبی ﷺ نےمقام حدیبیہ سے قریش کےپاس اپنے آنے کی اطلاع بھیج دی اورآگے بڑھنے کی اجازت بھی ان سےچاہی ۔
عثمان بن عفان جن کا اسلامی تاریخ میں ذولنورین لقب ہے، سفیربنا کربھیجے گئے۔ان کےجانے کےبعد لشکر اسلامی میں یہ خبر پھیل گئی کہ قریش نےحضرت عثمان کوقتل یاقید کردیا ہے۔اس لیے نبی ﷺ نےاس بے سروسامانی میں جمعیت سےجان نثاری کی بیعت لی کہ اگر لڑنا بھی پڑا تو ثابت قدم رہیں گے۔بیعت کرنے والوں کی تعداد چودہ سوتھی۔قرآن مجید میں ہے۔لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذیبایعونک تحت الشجرۃ اس بیعت میں نبی کریم ﷺ نےاپنے بائیں ہاتھ کو عثمان کا داہنا ہاتھ قرار دیا اوران کی جانب سے اپنے ہاتھ پربیعت کی ۔ اس بیعت کاحال سن کرقریش ڈر گئے اوران کےسردار یکے بعد دیگر ے حدیبیہ میں حاضر ہوئے۔عروہ بن مسعود جو قریش کی جانب سےآیا اس نےقریش کوواپس جاکر کہا (یہ عروہ جوآج قریش کا سفیر بن کرآیا تھا، چند سال کےبعد خود بخود مسلماں ہوگیا تھا، اوراپنی قوم میں تبلیغ اسلام کےلیے سفیر اسلام بن کرگیا تھا۔
اےقوم ! مجھے بارہا نجاشی (بادشاہ حبش) قیصر (بادشاہ قسطنطنیہ ) کسریٰ (بادشاہ ایران ) کےدربار میں جانے کا اتقاق ہواہے مگر مجھے کوئی بھی ایسا بادشاہ نظرنہ آیا جس کی عظمت اس کےدربار والوں کےدل میں ایسی ہوجیسے اصحاب محمد کےدل میں محمد کی ہے (ﷺ) محمدﷺ تھوکتا ہے تواس کا آب دہن زمین پرگرنے نہیں پاتا ۔کسی نہ کسی کےہاتھ ہی پرگرتا ہے اور وہ شخص اس آب دہن کواپنے چہرے پرمل لیتا ہے۔جب محمد (ﷺ) کوئی حکم دیتا ہےتوتعمیل کےلیے سب مبادرت کرتےہیں۔جب وہ وضو کرتا ہےتوآب مستعمل وضو کے لیے گرے پڑتے ہیں گویا لڑائی ہوپڑے گی۔جب کلام کرتاہے تو سب کےسب چپ ہوجاتے ہیں ۔ ان کےدل میں محمد (ﷺ) کااتناادب ہے کہ وہ اس کےسامنے نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے۔میری رائے ہےکہ ان سےصلح کرلو جس طرح بھی بنے ۔سوچ سمجھ کر قریش صلح پرآمادہ ہوئے۔صلح کےلیے مندرجہ ذیل شرائط طے ہوئیں۔
(1) دس سال تک باہمی صلح رہےگی،جانبین کی آمدوروفت میں کسی کوروک ٹوٹ نہ ہوگی
(2) جو قبائل چاہیں ،قریش سےمل جائیں اورجوقبائل چاہیں وہ مسلمانوں کی جانب شامل ہوجائیں ۔دوست دار قبائل کےحقوق بھی یہی ہوں گے
(3) اگلے سال مسلمانوں کوطواف کعبہ کی اجازت ہوگی۔ اس وقت ہتھیار ان کے جسم پر نہ ہوں گےگو سفر میں ساتھ ہوں
(4) اگر قریش میں سے کوئی شخص نبی ﷺ کےپاس مسلمان ہوکر چلا جائے تونبی ﷺ اس شخص کوقریش کےطلب کرنے پر واپس کردیں گے، لیکن اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ کر قریش سےجاملے توقریش اسے واپس نہ کریں گے۔
آخری شرط سن کر تمام مسلمان بجز ابوبکر صدیق گھبرا اٹھے،عمر فاروق اس بارے میں زیادہ پرجوش تھے۔لیکن نبی کریم ﷺ نےہنس کراس شرط کوبھی منظور فرمالیا ۔معاہد ہ حضرت علی مرتضیٰ نےلکھا تھا۔انہوں نے شروع میں لکھا ،بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سہیل جوقریش کی طرف سےمختار معاہدہ تھا، بولا ،بخدا ہم نہیں جانتے کہ رحمن کسے کہتے ہیں باسمک اللھم لکھو۔نبی ﷺ نےوہی لکھ دینےکا حکم دیا ۔ حضرت علی نےپھر لکھایہ معاہدہ ’’ محمد رسول اللہ ،، اور قریش کےدرمیان منعقد ہوا ہے۔سہیل نےاس پر بھی اعتراض کیا اورنبی کریم ﷺ نےاس کی درخواست پرمحمد بن عبداللہ لکھنے کا حکم دیا۔(بخاری عن مسور بن مخرمہ باب الشروط فی الجہاد ) یہی سہیل جوآج اسم مبارک محمد ﷺ کےساتھ رسول لکھنے پراعتراض کرتا ہےچند سال کےبعد دلی شوق اورامنگ سےمسلمان ہوگیا۔انتقال نبوی ﷺ کےبعد مکہ مکرمہ میں اس نےاسلام کی حقانیت پرایسی زبردست تقریر کی تھی ،جو ہزاروں مسلمانوں کےلیے استحکام اور تازگی ایمان باعث ٹھہر ی تھی ، بےشک یہ اسلام کاعجیب اثر ہےکہ وہ جانی اوردلی دشمنوں کودم بھر میں اپنا فدائی بنا لیتا ہے۔
معاہد ہ کی آخری شرط کی نسبت قریش کاخیال تھا کہ اس شرط سے ڈر کرکوئی شخص آئندہ مسلمان نہ ہوگا،لیکن یہ شرط ابھی طے ہی ہوئی تھی اور عہد نامہ لکھا ہی جارہا تھا،دونوں طرف سےمعاہدہ دستخط بھی نہ ہوئے تھے کہ سہیل بن عمرو (جواہل مکہ کی طرف سےمعاہدہ پردستخط کرنے کااختیار ر کھتا تھا) کے سامنے ابوجندل اسی جلسہ میں پہنچ گیا اور ابوجندل مکہ میں مسلمان ہوگیا تھا ، قریش نے اسےقید کررکھا تھااور اب وہ موقع پاکر زنجروں سمیت ہی بھاگ کرلشکر اسلامی میں پہنچا تھا۔سہیل نےکہا کہ اسے ہمارے حوالہ کیا جائے۔
عہدنامہ کب واجب العمل ہوتا ہے : نبی ﷺ نےفرمایا کہ عہد نامے کےمکمل ہوجانے پراس کےخلاف نہ ہوگا ،یعنی تک عہد نامہ مکمل نہ ہوجائے ا س کی شرط پرعمل نہیں ہوسکتا ۔سہیل نے بگڑ کر کہا کہ تب ہم صلح ہی نہیں کرتے ۔نبی ﷺنےحکم دیااور ابوجندل قریش کےسپردکردیا گیا۔ قریش نےمسلمانوں کےکیمپ میں اس کی مشکیں باندھیں ،پاؤں میں زنجیر ڈالی اور کشاں کشاں لے گئے۔نبی ﷺ نےجاتے وقت اس قدر فرمادیا تھا کہ ابوجندل ! خداتیر ی کشائش کےلیے کوئی سبیل نکال دےگا۔
ابو جندل کی ذلت اورقریش کاظلم دیکھ کرمسلمانوں کےاندر جوش اورطیش توپیدا ہوا،مگر نبی ﷺ کاحکم سمجھ کرضبط وصبر کئے رہے۔ نبی ﷺ حدیبیہ ہی میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اسی (80) آدمی کوہ تنعیم سےصبح کےوقت جب مسلمانوں نماز میں مصروف تھے اس ارادے سے اترے کہ مسلمانوں کی نماز میں قتل کردیں یہ سب گرفتار کرلئے گئے اور آنحضر ت ﷺ نےانہیں ازراہ رحم دلی وعفو چھوڑ دیا۔
حملہ آور اعداء کومعافی : اسی واقعہ پر قرآن مجید میں اس آیت کانزول ہوا ۔ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ(سورۂ الفتح آیت: 23) خدا وہ ہے جس نے وادی مکہ میں تمہارے دشمنوں کےہاتھ تم سےروک دیئے اورتمہارے ہاتھ بھی (ان پرقابو پانے کےبعد )ان سےروک دیئے۔
الغرض یہ سفر بہت خیر وبرکت کاموجب ہوا۔ آنحضرت ﷺ نےمعاندین کےساتھ معاہدہ کرنے میں فیاضی ، حزم، دوربینی اورحملہ آور دشمنوں کی معافی میں عفو اورحمۃاللعالمینی کےانور کاظہور دکھایا، حدیبیہ ہی سے مدینہ منورہ کوواپس تشریف لے گئے ۔اسی معاہدہ کےبعد سورۃ الفتح کانزول حدیبیہ میں ہوا تھا۔ عمر فاروق نےپوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہ معاہدہ ہمارے لئے فتح ہے؟ فرمایا ہاں ! ابوجندل نےزندان مکہ میں پہنچ کردین حق کی تبلیغ شروع کردی، جوکوئی اس کی نگرانی پرمامور ہوتا، وہ اسے توحید کی خوبیاں سناتا، اللہ کی عظمت وجلالت بیان کرکے ایمان کی ہدایت کرتا۔ خدا کی قدرت کہ ابوجندل اپنے سچے ارادے اورسعی میں کامیاب ہوجاتا اور وہ شخص مسلمان ہوجاتا۔ قریش ا س دوسرے ایمان لانے والے کوبھی قید کردیتے ،اب یہ دونوں مل کر تبلیغ کاکا م اسی قید خانہ میں کرتے ۔ الغرض اس طرح ایک ابوجندل کےقید ہوکر مکہ پہنچ جانے کانتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کےاندر قریبا تین سواشخاص نبی ﷺ کی خدمت میں بھیجے ،آنحضرت ﷺ نےابوبصیر کوان کے سپرد کردیا ۔ راستہ میں ابوبصیر نےان میں سے ایک کو دھوکا دے کر ماردیا، دو سرا نبی ﷺ کی خدمت میں اطلاع دینے کےلیے گیا۔اس کےپیچھے ہی ابوبصیر پہنچا،نبی ﷺ نےاسے فساد انگیز فرمایا اس عتاب سےخوف زدہ ہوکر وہاں سے بھی بھاگا۔ قریش نےابوجندل اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کومکہ سےنکال دیا ۔ابو جندل کوچونکہ مدینہ آنے کی اجازت نہ تھی،اس نےمکہ سےشام کےراستہ پرایک پہاڑی پرقبضہ کرلیا، جوقافلہ قریش کاآتا جاتا اسے لوٹ لیتا (کیونکہ قریش فریق جنگ تھے) ابوبصیر بھی اسی سےجلاملا۔
ایک دفعہ ابوالعاص بن ربیع کاقافلہ بھی شام سےآیا ۔ابو جندل وغیرہ ابوالعاص سےواقف تھے، سیدہ زینب بنت رسول ﷺ کااس سے نکاح ہوا تھا (گوابوالعاص کےمشرک رہنے سےافراق ہوچکا تھا) ابوجندل نےقافلہ لوٹ کیا۔ مگر کسی جان کانقصان نہ ہوا۔اس لیے کہ ابوالعاص ان میں تھا۔ابوالعاص وہاں سے سیدھا مدینہ آیا اور حضرت زینب ؓ کی وساطت سےماجرا کی اطلاع نبی ﷺ تک پہنچائی ۔نبی ﷺ نےمعاملہ صحابہ کےمشورہ پرچھوڑ دیا۔ صحابہ نےابوالعاص کی تائید میں فیصلہ کیا۔جب ابوجندل کواس فیصلہ کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے نےسارا اسباب رسی اورمہار شتر تک ابوالعاص کوواپس کردیا، ابوالعاص مکہ پہنچا ۔سب لوگوں کاروپیہ پیسہ اسباب اداکیا۔پھرمناوی کرائی کہ اگر کسی کا کوئی حق مجھ پررہ گیا ہوتو بتادے۔سب نے کہا توبڑا امین ہے۔ابوالعاص نےکہااب میں جاتا ہوں اورمسلمان ہوتاہوں۔مجھے ڈر تھاکہ اگر اس سے پہلے ہوجاتا مسلمان ہوجاتا تولوگ الزام لگاتے کہ ہمارا مال مارکر مسلمان ہوگیا ہے۔نبی ﷺ نے ابوجندل اورا س کےساتھیوں کوبھی اب مدینہ منورہ بلا لیا تھا تاکہ وہ قریش کونہ لوٹ سکیں۔اب قریش گھبرائے کہ ہم نےکیوں عہدنامےمیں ان ایمان والوں کوواپس لینے کی شرط درج کرائی پھر انہوں نےمکہ کےچند منتخب شخصوں کونبی ﷺ کےخدمت میں بھیجا کہ ہم عہد نامہ کی اس شرط سےدستبردار ہوتےہیں۔ان نومسلموں کواپنے پاس واپس بلا لیجئے۔نبی ﷺ نےمعاہدہ کےخلاف کرنا ناپسند نہ فرمایا۔اس وقت عام مسلمان بھی سمجھ گئے کہ معاہدہ کی وہ شرط جوبظاہر ہم کو ناگوار تھی اس کامنظو رکرلینا کس قدر مفید ثابت ہوا۔
ابوجندل کےحال سےکیا نتیجہ حاصل ہوتاہے!
ابوجندل کےقصہ سے ہرشخص جوسر میں دماغ اوردماغ میں فہم کا مادہ رکھتاہے۔وہ سمجھ سکتاہے کہ اسلام کی صداقت کیسی الہیٰ طاقت کےساتھ پھیل رہی تھی اور کس طرح طالبان حق کےدل میں قبضہ کررہی تھی کہ وطن کی دوری ، اقارب کی جدائی ،قید ،ذلت،بھوک ،پیاس ،خوف وطمع، تلوار ،پھانسی غرض دنیا کی کو ئی چیز اورکوئی جذبہ ان کو اسلام سے نہ روک سکتا تھا۔
صلح کاحقیقی فائدہ : امام زہری نےمعاہدہ کی دفعہ او ل کے متعلق تحریر فرمایا ہےکہ جانبین سےآمد ورفت کی روک ٹوک کےاٹھ جانے سے یہ فائدہ ہواکہ لوگ مسلمانوں سےملنے جلنےلگے اوراس طرح ان کواسلام کی حقیقت اورصداقت معلوم کرنے کے مواقع ملےاور اسی وجہ سے اس سال اتنے زیادہ لوگوں نے اسلا م قبول کیا کہ اس سےپیشتر کسی سال اتنے مسلمان نہ ہوئے تھے۔
مسلمانوں کاطواف کعبہ کےلیےجانا اوراس کےنتائج (7ہجری مقدس 9) معاہد حدیبیہ کی شرط دوم کی رو سے مسلمان اس سال مکہ پہنچ کرعمرہ کرنےکا حق رکھتے تھے۔اس لیے اللہ کارسول دوہزار صحابہ کےساتھ لےکر مکہ پہنچا ۔ مکہ والوں نے نبی ﷺ کو مکہ آنے سےتونہ روکا لیکن خود گھروں کومقفل کرکے کوہ ابو قبیس کی چوٹی پرجس کےنیچے مکہ آباد ہےچلے گئے، پہاڑ پرسے مسلمانوں کے کام دیکھتے رہے۔خدا کانبی ﷺ تین دن تک کےلیے مکہ میں رہا اورپھر ساری جمعیت کےساتھ مدینہ کوواپس چلا گیا۔ان منکروں پرمسلمانوں کےسچے جوش، سادہ اورمؤثر طریق عبادت کا اوران کی اعلیٰ دیانت وامانت کا( کہ خالی شدہ شہر میں کسی کاایک پائی کابھی نقصان نہ ہوا تھا) عجیب اثر ہوا،جس نےسینکڑوں کواسلام کی طرف مائل کردیا۔
جنگ خیبر ۔ (محرم 7ھ) : خیبر مدینہ سےشام کی جانب تین منزل پر ایک مقام کانام ہے،یہ یہودیوں کی خالص آبادی کاقصبہ تھا۔آبادی کےگردا گرد مستحکم قلعے بنائے ہوئےتھے۔نبی ﷺ کوسفر حدیبیہ سےپہنچے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن (ایک ماہ سےکم ) ہوئے تھےکہ یہ سننے میں آیا کہ خیبر کےیہودی پھرمدینہ پرحملہ کرنے والے ہیں اورجنگ احزاب کی ناکامی کابدلہ لینے اوراپنی کھوئی ہوئی جنگی عز ت وقوت کاملک بھر میں بحال کرنے کےلیے ایک خونخوار جنگ کی تیار ی کرچکے ہیں۔انہوں نے قبیلہ غطفان کےچار ہزار جنگجو بہادروں کوبھی اپنےساتھ ملالیا تھا اور معاہدہ یہ تھاکہ اگر مدینہ فتح ہوگیا تو پیدا وار خیبر کانصف حصہ ہمیشہ بنو غطفان کودیتے رہیں گے۔مسلمان محاصرہ کی سختی کوجوپچھلے سال ہی جنگ احزاب میں انہیں اٹھانی پڑی تھی، ہنوز نہیں بھولے تھے۔اس لئے سب مسلمانوں کااس امر پراتفاق ہوگیا کہ حملہ آور دشمن کوآگے بڑھ کرلینا چاہیے ۔
نبی ﷺ نےاس غزوہ میں ضرب انہی صحابہ کوہم رکاب چلنے کی اجازت دی تھی جو لقد رضی اللہ عن المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبھم کی بشارت سےممتاز تھے اورجن کووعد کم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذونھا ۔کا مژدہ مل چکا تھا ۔ان کی تعداد چودہ سوتھی جن میں سےدو سواسپ سوار تھے۔
مقدمہ لشکر کےسردار عکاشہ بن محصن اسدی اورمیمنہ لشکر کےسردار عمربن الخطاب تھے۔سردار میسرہ کوئی او ر صحابی تھے ۔صحابیہ عورتیں بھی شامل تھیں،جو بیماروں اورزخمیوں کی خبر گیری اورتیمارداری کےلیے ساتھ ہولی تھیں۔لشکر اسلام آبادی خیبر کےمتصل رات کےوقت پہنچ گیا تھا لیکن نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ لڑائی رات کوشروع نہ کرتے تھے اورنہ شب خون ڈالا کرتے تھے۔اس لیے لشکر اسلام نےمیدان میں ڈیرے ڈال دئیے ۔معرکہ کےلیے اس مقام کاانتخاب مرد جنگ آزما خباب بن المنذر نے کیا تھا۔یہ میدان اہل خیبر اور بنو غطفان کےدرمیان پڑتاتھا۔ اس تدبیر کافائدہ یہ ہواکہ جب بنو غطفان یہودیان خیبر کی مدد کےلیے نکلے توانہوں نے لشکر اسلام کوسدراہ پایا اوراس لیے چپ چاپ اپنے گھروں کوواپس چلے گئے ۔
نبی ﷺ نے حکم دیا تھا کہ لشکر کابڑا کیمپ اسی جگہ رہے گااورحملہ آور فوج کےدستے کیمپ سےجایا کریں گے۔لشکر کےاندر فوراً مسجد تیار کرلی گئی تھی اورجنگ کےدوش بدوش تبلیغ کاسلسلہ بھی جاری فرمادیا گیاتھا۔
حضرت عثمان ۔۔۔۔۔۔ اس کیمپ کےذمہ دار افسر تھے۔قصبہ خیبر کےقلعے جوآبادی کےدائیں بائیں واقع تھے شمار میں د س تھے،جس کےاندر دس ہزار جنگی مرد رہتے تھے، ہم ان کوتین حصوں پرتقسیم کرسکتے ہیں (1) قلعہ ناعم (2) قلعہ نطاۃ (3)حصن صعب بن معاذ ۔یہ چاروں حصوں نطاۃ کےنام سے نامزد تھے(4) حصن الزبیر (5) حصن شن (6) حصن البر ۔یہ تینوں حصوں شن کانام سےنامزد تھے۔(7) حصن ابی (8) حصن قموص طبر ی (9) حصن وطیح (10) حصن سلالم۔جسے حصن بنی الحقیق بھی کہتے ہیں ۔یہ تینوں حصوں کتبیہ کےنام سے نامزد تھے۔
محمود بن مسلمہ کوحملہ آور فوج کا سردار بنایا گیااور انہوں نے قلعہ نطاۃ پرجنگ کاآغاز کردیا ۔نبی ﷺ خود بھی حملہ آور فوج میں شامل ہوئے تھے، باقی ماندہ فوجی کیمپ زیر نگرانی حضرت عثمان بن عفان تھا۔
محمود بن مسلمہ پانچ روز تک برابر حملہ کرتے رہے لیکن قلعہ فتح نہ ہوا ، پانچویں یا چھٹے روز کا ۔۔۔۔۔ ذکرہےکہ محمود میدان جنگ کی گرمی سےذرا سستانےکےلیے پائیں قلعہ دیوار کےسایہ میں لیٹ گئے۔ کنانہ بن الحقیق یہودی نےانہیں غافل دیکھ کر ایک پتھر ان کے سرپر دےمارا جس سےوہ شہید ہوگئے ۔فوج کی کمان محمد بن مسلمہ کےبھائی نےسنبھال لی اور شام تک کمال شجاعت ودلاوری سےلڑتے رہے۔محمد بن مسلمہ کی رائے ہوئی کہ یہودیوں کےنخلستان کاکاٹا جائے کیونکہ ان لوگوں کو ایک ایک درخت ایک ایک بچہ کےبرابر پیارا ہے۔اس تدبیر سےاہل قلعہ پراثر ڈالا جاسکے گا۔ اس تدبیر پرعمل شروع ہوگیا تھاکہ ابوبکر صدیق نےنبی ﷺ کےحضور میں حاضر ہوکر التماس کیاکہ یہ علاقہ یقینا مسلمانوں کےہاتھ پرفتح ہونےوالا ہےپھر ہم سے اپنے ہاتھوں کیوں خراب کریں۔نبیﷺ نےاس رائے کوپسند فرمایا اورابن مسلمہ کےپاس نخلستان کاٹنے کاحکم امتناعی بھیج دیا ۔شام کومحمد بن مسلمہ نےاپنے بھائی کی مظلومانہ شہادت کا قصہ خود ہی نبی ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا ، نبی ﷺ نےفرمایا لاعطین (اولیاتین)الرایۃ غدا رجل یحبہ اللہ ورسولہ یفتح اللہ علیہ کل فوج کانشان اس شخص کودیا جائے گا( یاوہ شخص نشان ہاتھ میں لے گا) جس سے خداتعالیٰ محبت کرتےہیں اورخدا تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔یہ ایسی تعریف تھی ، جسے سن کرفوج کےبڑے بڑے بہادر اگلے دن کی کمان ملنے کے آرزو مند ہوگئے ۔اس رات پاسبانی لشکر کی خدمت حضرت عمر بن الخطاب کےسپرد تھی۔انہوں نے گرداوری کرتے ہوئےایک یہودی کوگرفتار کیااور اسی وقت نبی ﷺ کی خدمت میں لائے ۔آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے ۔آنحضرت ﷺ نماز تہجد میں تھے، جب فارغ ہوئے تویہودی سےگفتکوفرمائی ۔ یہودی نےکہا کہ اگر اسےاور اس کی زن وبچہ کوجو قلعہ کےاندر ہیں امان عطا ہوتو وہ بہت سےجنگی راز بتا سکتا ہے۔یہ وعدہ اس سےکرلیا گیا۔ یہودی نےبتایا کہ نطاۃ کےیہودی آج کی رات اپنے زن وبچہ کو قلعہ شن میں بھیج رہے ہیں اورنقدو جنس کوقلعہ کوقلعہ نطاۃ کےاندر دفن کررہےہیں ۔مجھے وہ مقام معلوم ہے ۔جب مسلمان قلعہ نطاۃ لےلیں گےتومیں وہ جگہ بتا دوگا۔ بتایا کہ قلعہ شن کےتہ خانوں میں قلعہ شکنی کےبہت سےآلات منجنیق وغیرہ موجود ہیں۔جب مسلمان قلعہ شن فتح کرلیں گےتومیں وہ تہ خانے بھی سب بتادوں کا۔ صبح ہوئی تونبی کریمﷺ نےحضرت علی مرتضیٰ کویاد فرمایا۔ لوگوں نےعرض کیا کہ انہیں آشوب چشم ہےاور آنکھوں میں درد بھی ہوتا رہا ہے۔حضرت علی آگئے تونبی ﷺ نےلب مبارک جناب علی مرتضیٰ کوآنکھوں کولگایا دیا۔ اسی وقت آنکھیں کھل گئیں نہ آشوب کی سرخی باقی تھی اور نہ درد کی تکلیف ۔ پھر فرمایا علی! جاؤ راہ خدا میں جہاد کرو، پہلے اسلام کی دعوت دو، بعد میں جنگ کرو۔ علی ! اگر تمہارے ہاتھ پر ایک شخص بھی مسلمان ہوجائے تو یہ کام بھاری غنیمتوں کےحاصل ہوجانے سے بہتر ہوگا۔
حضرت علی مرتضی نے قلعہ ناعم پر جنگ کی طرح ڈالی ۔مقابلہ کےلیے قلعہ کامشہور سردار مرحب میدان میں نکلا۔یہ اپنے آپ کوہزاروں بہادروں کےبرابر کہاکرتا تھا۔ اس نے آتے ہی یہ رجز پڑھنا شروع کردیا۔قد علمت خیبر انی مرحب۔شاکی السلاح بطل مجرب ۔اذ القلوب اقبلت تلهب ! ۔’’ خیبر جانتا ہےکہ میں ہتھیار سجانے والا بہادر تجربہ کامرحب ہوں۔جب لوگوں کےہوش مارے جاتے ہیں ، تو میں بہادر ی دکھاتا ہوں،،
اس مقابلہ کےلیے عامر بن الاکوع نکلے ۔وہ بھی اپنا رجز پڑھتے جاتے تھے۔
قد علمت خیبر انی عامر ۔شاکی السلاح بطل مقائر۔ خیبر جانتا ہے کہ ہتھیار چلانےمیں استاد نبردآزما تلخ ہوں۔ میرا نا عامر ہے۔
مرحب نےان پرتلوار سےوار کیا۔ عامر نےاسے ڈھال پرروکا اورمرحب کےحصہ زیریں وار چلایا۔ مگر ان کی تلوار جو لمبائی میں چھوٹی تھی۔ان ہی کےگھنٹے پرلگی ، جس کےصدمے سےبالآخر شہید ہوگئے۔
پھر حضرت علی مرتضیٰ نکلے۔ رجز حیدری سےمیدان گونج اٹھا۔
انا الذى سمتنى امى حيدره- اكيلكم بالسيف كيل السندره –كليت باغات شديدقسورة ’’ میں ہوں کہ میری ماں نےمیرا نام شیرغضبناک رکھاہے،میں اپنی تلوار کی سخاوت سےتمہیں بڑے بڑے پیمانے عطا کروں گا۔شیرببرحملہ آور ہنرمیدان ہوں۔،،
حضرت علی مرتضیٰ نےایک ہی ہاتھ تلوار کاایسا مارا کہ مرحب کےخود آہنی کوکاٹتا ہواعمامہ کوقطع کرتاسرکےدو ٹکڑے بناتا ہواگردن تک جاپہنچا ۔مرحب کابھائی یا سرنکلا اسے زبیر بن العوام نےخاک میں سلادیا۔
اس کےبعد حضرت علی مرتضی کےعام حملہ سےقلعہ ناعم فتح ہوگیا۔اسی روز قلعہ صعب کوحضرت حباب بن المنذر نے محاصرہ سے تیسرے دن بعد فتح کرلیا۔حبات بن المنذر انصاری السلمی ابوعمر وکنیت اور ذوالرائے لقب تھا۔غزوہ بدر میں 33سال کےتھے، میدان جنگ بدر کےمتعلق بھی آنحضرت ﷺ نےان کےرائے کوپسند فرمایا تھا۔حضرت عمر کی خلافت میں انتقال فرمایا،قلعہ صعب سےمسلمانوں کوجو ،کھجور ، چھوہارے ،مکھن ،روغن ،زیتون ، چربی اورپارچہ جات کی مقدارکثیر ملی۔فوج میں قلت رسد سے جوتکلیف ہورہی تھی و ہ رفع ہوگئی۔اس قلعہ کےآلات قلعہ شکن بھی برآمد ہوئے، جس کی خبر یہودی جاسوس دے چکا تھا۔اس سے اگلے روز قلعہ نطاۃ فتح ہوگیا۔اب قلعہ الزبیر جوایک ایک پہاڑی ٹیلہ پرواقعہ تھا اوراپنے بانی زبیر کےنام موسوم تھا، پرحملہ کیاگیا۔دوروز کےبعد ایک یہودی لشکر اسلام میں آیا ۔ اس نے کہا یہ قلعہ تومہینہ تک بھی تم فتح نہ کرسکو گےمیں ایک راز بتاتا ہوں۔اس قلعہ کےاندر پانی زیر زمین نالہ کی راہ سےجاتا ہےاگر پانی کاراستہ بند کردیا جائے تو قتح ممکن ہے۔مسلمانوں نے پانی پرقبضہ کرلیا۔اب اہل قلعہ، قلعہ سے نکل کھلے میدان میں آکر لڑےاورمسلمانوں نےانہیں شکست دےکر قلعہ کوفتح کرلیا۔
پھر حصن ابی پرحملہ شروع ہوا۔اس قلعہ والوں نے سخت مدافعت کی ، ان میں سےایک شخص جس کانام غزوان تھا، مبارزت کےلیے باہر نکلا۔حباب مقابلہ کوگئے اس کا بازو راست کٹ گیا۔وہ قلعہ کوبھاگا،حباب نےتعاقب کیااور اس کی رگ شاشنہ کوبھی کاٹ ڈالا ، وہ گرپڑا اورپھر قتل کیا گیا۔
قلعہ سےایک اور یہودی نکلا، جس کا مقابلہ ایک مسلمان نےکیا۔مگر مسلمان اس کےہاتھ سےشہید ہوگیا۔اب ابودجانہ نکلے ۔انہوں نے جاتے ہی اس کےہاتھ پاؤں کاٹ دئیے اورپھرقتل کرڈالا۔
یہود پرعت طاری ہوگیا اورباہر نکلنے سےرک گئے۔ابودجانہ آگے بڑھے۔مسلمانوں نے ان کاساتھ دیا۔تکبیر کہتے ہوئے قلعہ کی دیوار پرچڑھے ۔قلعہ فتح کرلیا۔اہل قلعہ بھاگ گئے اس قلعہ سےبکریاں اوراکپڑے اوراسباب بہت ساملا۔اب مسلمانوں نےحصن البربرحملہ کردیا۔یہاں کےقلعہ نشینوں نے مسلمانوں پراتنے تیربرسائے اوراتنے پتھر گرائے کہ مسلمانوں کوبھی مقابلہ میں منجنیق کااستعال کرنا پڑا۔ منجنیق وہی تھے جوحصن صعب سےغنیمت میں ملے تھے۔ منجنیقوں سےقلعہ کی دیواریں گرائی گئیں اورقعلہ فتح ہوگیا۔(اس عظیم فتح کےبعد بہت سے اکابر نےاسلام قبول کرلیا) انہیں ایمان لانے والوں میں خالد بن ولید تھے، جوجنگ احد میں کافروں کارسالہ کےافسر تھےاور مسلمانوں کوانہوں نے سخت نقصان پہنچایا۔یہی وہ خالد ہیں جنہوں نےاسلامی جنرل ہونے کی حیثیت میں مسلمہ کذاب کوشکست دی، تمام عراق اورنصف شام کاملک فتح کیا تھا۔مسلمانوں کےایسے جانی دشمن اورایسے جانباز اعلیٰ سپاہی کاخود بخود مسلمان ہوجانا اسلام کی سچائی کامعجزہ ہے۔
عمرو بن عاص کااسلام لانا 8 ھ :
انہی اسلام لانے والوں میں عمروبن العاص تھے،قریش نے ان ہی کو مسلمانوں سے عداوت اوربیرونی معاملات میں اعلیٰ قابلیت رکھنے کی وجہ سے اس ڈیپوپیشن کاسردار بنایا تھاجو شاہ حبش کاپاس گیا تھا تاکہ وہ حبش میں گئے ہوئے مسلمانوں کوقریش کےحوالے کردے۔انہیں عمروبن عاص نےحضرت عمر کےزمانہ خلافت میں ملک مصرکوفتح کیا تھا۔ایسے مدبروماہر سیاست اورفاتح ممالک کامسلمان ہوجانا بھی اسلام کااعجاز ہے۔
انہی اسلام لانے والوں میں عثمان بن طلحہ بھی تھے۔جوکعبہ کےاعلیٰ مہتمم وکلید بردار تھےجب یہ نامی سردار (جن کی شرافت حسب ونسب سارے عرب میں مسلمہ تھی)نبی ﷺ کی خدمت میں جاپہنچا تونبی ﷺ نےفرمایا کہ آج مکہ نے جگر کےدوٹکڑے ہم کو دے ڈالے ۔(منتخب از رحمۃاللعالمین ۔جلد اول )
قارئین کرام بخاری نےبیشتر احادیث کی روایت کرنے والی خاتون ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کانام نامی واسم گرامی پڑھاہوگامگر ایسے بہت کم ہوں گے جوحضرت صدیقہ کےحالات سےوقفیت رکھتے ہوں گے اس لیے مناسب معلوم ہواکہ حضرت صدیقہ ؓ کےکچھ حالات زندگی درج کردئیے جائین اللہ پاک ایمان والوں کی ماں رسول کریم ﷺ کی حرم محترم حضرت عائشہ ؓ کی روح پاک پرہماری طرف سے بےشمار سلام اوررحمتیں نازل فرمائے ۔آمین ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا :
عائشہ بن ابوبکر صدیق ؓ عبداللہ بن ابی قحافہ عثمان بن عامر بن عمربن کعب بن سعد ابن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن قالب بن بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ۔
ننہال کی طرف سےعائشہ ؓ بنت ام ہارون بنت عامر بن عویمر بن عبدالشمس بن عتاب بن اذنیہ ابن سبیع بن وہمان بن حارث ین غنم بن مالک بن کنانہ۔
آپ کانسب نامہ حضور سرور کائنات سے با پ کی طرف سےآٹھویں اورماں کی طرف سے ہارہویں پشت میں کنانہ سے جاملتا ہےاس طرح سے آپ باپ کی طرف سے قریشی اورماں کی طرف سے کنانی ہیں۔
لقب وخطاب : آ پ کانام عائشہ ، لقب حمیر اور صدیقہ اورخطاب ام المؤمنین ،کنیت ام عبداللہ ۔ حضرت عائشہ ؓ کےہاں کوئی اولاد نہ ہوئی جس کےنام سےوہ اپنی کنیت مقرر کرتیں اورکنیت سےکسی کاپکاراجانا عرب میں چونکہ عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی ، اس لیے آپ نےحضور ﷺ کےمشورہ سےاپنی بہن اسماء کےبیٹے عبداللہ بن زبیر کےنام پراپنی کنیت ام عبداللہ رکھ لی تھی۔
تاریخ ولادت: آپ کی ولادت کی صحیح تاریخ تومعلوم نہیں، لیکن اس قدر ثابت ہے کہ حضور ﷺ کی بعثت کےپانچویں اور ہجرت نبوی سےنوسال پہلے پیداہوئی تھیں۔کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہےکہ ہجرت سےتین سال پہلے جب آپ کا حضور سرور کائنات سےنکاح ہوا تواس وقت آ پ کی عمر چھ سال تھی اورمدینہ منورہ پہنچ کر 1ھ میں آپ کاشایہ نبوی میں داخل ہوئیں توآپ کی عمر نوسال کی تھی۔
رضاعت : شرفائے عرب کےدشتور کےموافق آ پ کو وائل کی بیوی نےدودھ پلایاتھا۔(اسدالغابہ میں وائل کی ماں لکھا ہے لیکن صحیح بخاری باب الرضاعت میں بیو ی لکھا ہے اوریہی صحیح ہے) ایک دفعہ وائل کےبھائی افلح یعنی آپ کےرضاعی چچا آپ سے ملنے کوآئے اور انہوں نے اندر آنے اجازت مانگی، حضر ت عائشہ ؓ نےفرمایا کہ جب تک میں رسول اللہ ﷺ سےنہ پوچھ لوں ،اجازت نہیں دے سکتی ۔جس وقت حضورﷺ گھر میں تشریف لائے توآپ نےان سے فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں حضرت عائشہ ؓ نےعرض کیاکہ حضور ﷺ ،دودھ توعورت پلاتی ہےمرد نہیں پلاتا۔حضور ﷺ نےفرمایا وہ تمہارے چچا ہیں۔تمہارے پاس آسکتےہیں۔
بچپن : آپ کے والدین آپ کی پیدائش سےپیشتر ہی مسلمان ہوچکے تھے۔اس لیے دنیا میں آنکھ ہی توحید کی صداان کے کان میں پہنچنے لگی اور شرک وکفر کی آلودگی سے بالکل پاک رہیں۔ہونہار بروا کےچکنے چکنے پات ، آپ بچپن ہی میں فہم وذکا،قدوقامت اورصورت وسیرت میں ممتاز تھیں۔اعضاء مضبوط اورجسم توانا تھا، عام بچوں کی طرح بچپن میں حضرت عائشہ ؓ بھی کھیل کو د کی بہت دلدادہ تھیں،گڑیوں سےکھیلنا اورجھولے جھولنا آپ کےدو مرغوب ترین کھیل تھے، محلّہ کی تمام لڑکیان آپ کےگھر میں جمع ہوجاتیں اورکھیل کود میں ان کےاشاروں پر چلتیں ۔وہ آپ کےسامنے ایسی مرعوب ومؤدب رہتیں ،گویا کہ حضرت عائشہ ؓ ان کی سردار ہیں۔والدین اس چھوٹی سی عمر میں آپ کی فراست ورعب دیکھ کر خوش ہوتے اور انہیں بعض اوقات خیال گزرتا کہ یہ کسی دن ضرور معزز وممتاز ہوگی سچ ہے۔
بالا ئے سرش زہو شمندی مے نافت ستارہ بلندی
آپ کی ذہانت کا یہ حال تھا کہ بچپن کی ذرا ذرا سی باتیں بتفصیل آپ کویاد تھیں اورانہیں اس طرح بیان فرما دیا کرتی تھیں گویا کہ ابھی سامنے واقع ہورہی تھیں۔
شادی: نبوت کےدسویں سال ماہ رمضان المبارک میں حضرت خدیجہ الکبریٰ 65سال کی عمر میں انتقال فرماگئیں ۔ان کی جدائی کا حضور ﷺ کی سخت صدمہ ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا کہ کفار مکہ حضور ﷺ کوستانے میں کوئی وقیقہ اٹھانہ رکھتےتھے۔ان کی کلفتوں اور اذیتوں کی بھلانے اوردل وجان کوتسکین دینے والی ،تنہائی کی مونس بیوی جب دینا سےرخصت ہوگئیں توحضور ﷺ بےحد ملول رہنے لگے۔آپ کومغموم دیکھ کر مشہور صحابی عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم نےایک دن عرض کیا یارسو ل اللہ ! حضور ﷺ کسی عورت سےنکاح کرلیجیے ۔حضور ﷺ نےفرمایا کس عورت سے؟ عرض کیا،کنواری اوربیوہ دونوں موجود ہیں ،جس سےحکم ہو،اس کےمتعلق سلسلہ جنبانی کی جائے ۔فرمایاکون کون؟ عرض کیابیو ہ توسودہ بنت زمعہ ہیں ۔جوحضور پرایمان لاچکی ہیں اور کنواری حضرت ابوبکر صدیق کی ، جو حضور ﷺ کےنزدیک سب زیادہ محبوب ہیں، بیٹی عائشہ ہیں۔حضور ﷺ نےفرمایا بہتر ان دونوں کی بابت سلسلہ جنبانی کرو۔حضور ﷺ کی رضا حاصل کرکےخولہ خوشی خوشی حضرت ابوبکر کےگھر گئیں اورام رومان سےاس کا تذکرہ کیا۔ام رومان نےکہا عائشہ کےوالد کوآلینےدو ، وہ باہر گئے ہوئے ہیں۔تھوڑے دیر بعد جب حضرت ابوبکر گھرآئے تویہ مژدہ آپ کو سنایا گیا۔انہوں نے فرمایا اگر حضور کی مرضی ہےتواس میں مجھے کیاعذر ہے،لیکن حضور ﷺ تومیرے بھائی ہیں، عائشہ کانکاح حضور ﷺ سےکیونکہ ہوتا ہے؟ (زمانہ جاہلیت میں عرب میں دستور تھاکہ جس طرح سگےبھائی کی لڑکی سےنکاح جائزنہ تھا اسی طرح منہ بولے بھائی کی لڑکی کوبھی اپنے لیےحرام تھے)
خولہ پھر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورعرض کیاکہ ابوبکر نےیہ اعتراض کیاہے،حضور ﷺ نےفرمایا کہ ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں نہ کہ سگےبھائی اس لیے ان کی لڑکی سےنکاح جائز ہے۔وہاں کیا عذر تھا، حضرت ابوبکر نےسرتسلیم خم کردیا۔احادیث میں ہےکہ نکاح سےپہلے حضورﷺ نےخواب میں دیکھاتھا کہ ایک فرشتہ ریشم کےکپڑے میں لپیٹ کر کوئی چیز حضور ﷺ کےسامنے پیش کررہا ہے،حضو ر ﷺ نےپوچھا کیا ہے؟ اس نےجواب دیاکہ یہ حضور کی بیوی ہیں۔ حضور ﷺ نے کھول کر دیکھا توعائشہ رضی للہ عنہا تھیں۔
نکاح کےوقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر 6 سال تھی ۔نکاح رسم بڑے طریق سے عمل میں آئی ۔وہ اپنی سن سہلیوں کےساتھ کھیل رہی تھیں کہ ان کی انا آئی اور ان کولے گئی۔ان کےوالد نےآکر نکاح پڑھایا دیا۔پانچ سو درہم مہرمقررہوا۔حضرت عائشہ ؓ خود فرمایا کرتی تھیں کہ میرانکاح ہوگیا اورمجھےخبر تک نہ تھی،آخرآہستہ آہستہ میری والدہ نےمجھے اس امر کی اطلاع دے دی ۔
فضائل: آ پ میں چند ایک ایسی خصوصیتیں تھیں، جودوسری امہات المؤمنین کوحاصل نہ تھیں اوروہ یہ ہیں:
(1) حضور ﷺ کی صرف آپ ہی ایک ایسی بیوی تھیں ، جوکنواری حضور ﷺکےنکاح میں آئیں ،فرشتے نےآپ کی صو رت خواب میں حضورﷺ کے سامنے پیش کی
(2) آپ پیدائش ہی سے شرک وکفر کی آلودگی سے پاک رہیں
(3) آپ کےوالدین مہاجر تھے۔
(4) آپ کی برأت میں قرآن شریف کی آیات نازل ہوئیں
(5) آپ ہی کےلحاف میں حضور ﷺ کو کئی باروحی ہوئی، کسی اوربیوی کےلحاف میں نہیں ہوئی
(6) آپ ہی حجرے میں اور آپ ہی کےآغوش میں سررکھے ہوےحضورﷺ نےوفات پائی اوروہیں دفن ہوئے ۔
وفات : 85 ہجری مقدس ماہ رمضان میں آپ کی طبیعت علیل ہوئی اورچند روز تک بیمار رہیں، وصیت کی کہ مجھے حضورﷺ کےساتھ اس حجرہ میں دفن نہ کیجیو ،بلکہ دیگرازواج النبی کےساتھ مجھ کوبھی جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔رات ہی کودفن کردی جاؤں اورصبح کاانتظار نہ کیا جائے۔17 رمضان المبارک کی شب کووفات پائی،جنازہ حسب وصیت را ت ہی کےوقت اٹھایا گیا۔لیکن مردوں اورعورتوں کااتنا ہجوم تھاکہ رات کےوقت کبھی نہیں دیکھا گیا۔حضرت ابوہریرہ نےجوان دنوں حاکم مدینہ تھے۔نماز جنازہ پڑھائی ۔بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا اور وہ شمع رشد وہدایت دنیا کی نظروں سے پنہاں ہوگئی ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
ابوہریرہ (ابوہریرہﷺ :اپنی کنیت ہی سے ایسے مشہور ہوئے کہ ان کا صحیح نام دریافت کرنامشکل ہے،کوئی کہتا ہےعبداللہ بن عامر نام تھا۔کوئی کہتا ہےعمیر بن عامر،کوئی کہتاہےبریربن عشرقہ ، کوئی کہتا ہےسکین بن دومہ ،کوئی کہتا ہےعبداللہ بن عبدشمس ھ،کوئی کہتاہےعامر ،کوئی کہتاہے عبدنہم،کوئی کہتاہے عبدغنم۔کوئی کہتا ہےعبدشمس ،کوئی کہتاہے عبدعمروبن غنیم ،کوئی کہتا ہےمردوس بن عامر۔ابوعامر کہتے ہیں کہ جاہلیت میں ان میں سے کوئی نام ہوگا۔اسلامی نام عبداللہ یاعبدالرحمن ہے۔ازدی دوسی ہیں،آپ کےپاس ایک چھوٹی سی بلی تھی۔جس کو ساتھ رکھتے تھےاس لیے کنیت ابوہریرہ ہوگئی۔جنگ خیبر کےزمانہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لائے۔پھر ہر وقت حضور ﷺ کی خدمت میں رہنے لگے۔سب سے زیادہ حدیثیں انہی کی روایت کردہ ہیں۔57ھ یا 58ھ یا 59ھ میں فوت ہوئے۔(ماخوذ)