كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الغَضَبِ وَالجَزَعِ عِنْدَ الضَّيْفِ صحيح حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَضَيَّفَ رَهْطًا، فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: «دُونَكَ أَضْيَافَكَ، فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَافْرُغْ مِنْ قِرَاهُمْ قَبْلَ أَنْ أَجِيءَ»، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأَتَاهُمْ بِمَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: اطْعَمُوا، فَقَالُوا: أَيْنَ رَبُّ مَنْزِلِنَا، قَالَ: اطْعَمُوا، قَالُوا: مَا نَحْنُ بِآكِلِينَ حَتَّى يَجِيءَ رَبُّ مَنْزِلِنَا، قَالَ: اقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ، فَإِنَّهُ إِنْ جَاءَ وَلَمْ تَطْعَمُوا لَنَلْقَيَنَّ مِنْهُ، فَأَبَوْا، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يَجِدُ عَلَيَّ، فَلَمَّا جَاءَ تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتُمْ، فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: «يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ»، فَسَكَتُّ، ثُمَّ قَالَ: «يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ»، فَسَكَتُّ، فَقَالَ: «يَا غُنْثَرُ، أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي لَمَّا جِئْتَ»، فَخَرَجْتُ، فَقُلْتُ: سَلْ أَضْيَافَكَ، فَقَالُوا: صَدَقَ، أَتَانَا بِهِ، قَالَ: «فَإِنَّمَا انْتَظَرْتُمُونِي، وَاللَّهِ لاَ أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ»، فَقَالَ الآخَرُونَ: وَاللَّهِ لاَ نَطْعَمُهُ حَتَّى تَطْعَمَهُ، قَالَ: «لَمْ أَرَ فِي الشَّرِّ كَاللَّيْلَةِ، وَيْلَكُمْ، مَا أَنْتُمْ؟ لِمَ لاَ تَقْبَلُونَ عَنَّا قِرَاكُمْ؟ هَاتِ طَعَامَكَ»، فَجَاءَهُ، فَوَضَعَ يَدَهُ فَقَالَ: «بِاسْمِ اللَّهِ، الأُولَى لِلشَّيْطَانِ، فَأَكَلَ وَأَكَلُوا»
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: مہمان کے سامنے غصہ اور رنج کا ظاہر کرنا مکروہ ہے
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید الجریری نے بیان کیا ، ان سے ابو عثمان نہدی نے ، ان سے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کی میزبانی کی اورعبدالرحمن سے کہا کہ مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا ، میرے آنے سے پہلے انہیں کھانا کھلادینا ۔ چنانچہ عبدالرحمن کھانا مہمانوں کے پاس لائے اور کہاکہ کھانا کھایئے ۔ انہوں نے پوچھا کہ ہمارے گھر کے مالک کہاں ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ لوگ کھانا کھالیں ۔ مہمانوں نے کہا کہ جب تک ہمارے میزبان نہ آجائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے ۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہماری درخواست قبول کر لیجئے کیونکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آنے تک اگرآپ لوگ کھانے سے فارغ نہیں ہوگئے توہمیں ان کی خفگی کاسامنا ہوگا ۔ انہوں نے اس پر بھی انکارکیا ۔ میں جانتا تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھ پر ناراض ہوں گے ۔ اس لئے جب وہ آئے میں ان سے بچنے لگا ۔ انہوں نے پوچھا ، تم لوگوں نے کیا کیا ؟ گھروالوں نے انہیں بتایا توانہوں نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کوپکارا ! میں خاموش رہا ۔ پھر انہوں نے پکارا ! عبدالرحمن ! میں اس مرتبہ بھی خاموش رہا ۔ پھر انہوں نے کہا ارے پاجی میں تجھ کوقسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو باہر آجا ، میںباہر نکلا اور عرض کیا کہ آپ اپنے مہمانوں سے پوچھ لیں ۔ مہمانوں نے بھی کہا عبدالرحمن سچ کہہ رہا ہے ۔ وہ کھانا ہمارے پاس لائے تھے ۔ آخر والدرضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا انتظار کیا ، اللہ کی قسم میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا ۔ مہمانوں نے بھی قسم کھا لی اللہ کی قسم جب تک آ پ نہ کھائیں ہم بھی نہ کھائیںگے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا بھائی میں نے ایسی خراب بات کبھی نہیں دیکھی ۔ مہمانو ! تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو ۔ خیر عبدالرحمن کھانا لا ، وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا ، اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ، پہلی حالت ( کھانا نہ کھانے کی قسم ) شیطان کی طرف سے تھی ۔ چنانچہ انہوں نے کھانا کھایا اوران کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا ۔
تشریح :
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی آخرانسان تھے، مہمانوں کوبھوکا دیکھ کر گھر والوں پر خفگی کا اظہار کرنے لگے، مہمانوں نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ بھی کھانے سے قسم کھا بیٹھے ۔ آخر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خود اپنی قسم توڑ کر کھانا کھایا اور مہمانوں کو بھی کھلایا، قسم کھانے کو آپ نے شیطان کی طرف قرار دیا۔اسی سے باب کا مطلب نکلتا ہے ، کیوں کہ آپ نے مہمانوں کے سامنے جو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر غصہ کیا تھا اور قسم کھا لی تھی اس کو شیطان کا اغوا قرار دیا۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی آخرانسان تھے، مہمانوں کوبھوکا دیکھ کر گھر والوں پر خفگی کا اظہار کرنے لگے، مہمانوں نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ بھی کھانے سے قسم کھا بیٹھے ۔ آخر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خود اپنی قسم توڑ کر کھانا کھایا اور مہمانوں کو بھی کھلایا، قسم کھانے کو آپ نے شیطان کی طرف قرار دیا۔اسی سے باب کا مطلب نکلتا ہے ، کیوں کہ آپ نے مہمانوں کے سامنے جو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر غصہ کیا تھا اور قسم کھا لی تھی اس کو شیطان کا اغوا قرار دیا۔