كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا» صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: «مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِنْ كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ قَطُّ، إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمَ بِهَا لِلَّهِ»
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: نبی کریم ﷺ کا فرمان کہ آسانی کرو ، سختی نہ کرو ، آپ ﷺ لوگوں پر تخفیف اور آسانی کو پسند فرمایا کرتے تھے
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، ان سے مالک نے ، ان سے ابن شہاب نے ، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے ہمیشہ ان میں آسان چیزوں کو اختیار فرمایا ، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا ۔ اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا تو آنحضرت اس سے سب سے زیادہ دور رہتے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہیں لیا ، البتہ اگر کوئی شخص اللہ کی حرمت وحد کو توڑ تا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تو محض اللہ کی رضا مندی کے لئے بدلہ لیتے ۔
تشریح :
بظاہر اس حدیث میں اشکال ہے کیونکہ جو کام گناہ ہوتا ہے اس کے لئے آپ کو کیسے اختیار دیاجاتا ، شاید یہ مراد ہوکہ کافروں کی طرف سے ایسا اختیار دیا جاتا ۔
بظاہر اس حدیث میں اشکال ہے کیونکہ جو کام گناہ ہوتا ہے اس کے لئے آپ کو کیسے اختیار دیاجاتا ، شاید یہ مراد ہوکہ کافروں کی طرف سے ایسا اختیار دیا جاتا ۔