‌صحيح البخاري - حدیث 6121

كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ مَا لاَ يُسْتَحْيَا مِنَ الحَقِّ لِلتَّفَقُّهِ فِي الدِّينِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحِي مِنَ الحَقِّ، فَهَلْ عَلَى المَرْأَةِ غُسْلٌ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، إِذَا رَأَتِ المَاءَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6121

کتاب: اخلاق کے بیان میں باب: شریعت کی باتیں پوچھنے میں شرم نہ کرناچاہیئے ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے ، ان سے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ حق بات سے حیاءنہیں کرتاکیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر عورت منی کی تری دیکھے تو اس پر بھی غسل واجب ہے ۔
تشریح : یہ حضرت زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ربیبہ تھیں، ان کے والد ابو سلمہ تھے جن کا نام عبداللہ ابن عبدالاسد مخزومی ہے اور کنیت ابو سلمہ ہے۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پھوپھی زاد بھائی تھے ۔ ان کی والدہ کا نام بوہ بنت عبدالمطلب ہے اور ابو سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھی ہیں۔ ان کی بیوی ام سلمہ نے ان کے ساتھ حبشہ کی ہجرت کی تھی مگر مکہ واپس آگئے جب دوبارہ مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو ان کے بچے سلمہ کو ددھیال والوں نے چھین لیا اور حضرت ام سلمہ کو ان کے میکے والوں نے جبراً روک لیا ۔ ابوسلمہ دل مسوس کر بیوی اوربچوں کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مدینہ چلے گئے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک سال تک برابر روتی رہی اورروزانہ اس جگہ آکر بیٹھ جاتی جہاں شوہر سے الگ کی گئی تھیں ، ان کی اس بے قراری اورگریہ وزاری نے سنگ دل عزیزوں کو بھی رحم پرمجبور کردیا اورانہوں نے ان کوان کے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی ۔ یہ اکیلی مدینہ منورہ کو چل کھڑی ہوئیں، جنگ احد میں ابو سلمہ سخت زخمی ہوگئے اور جمادی الآخر3ھ میں ان زخموں کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت انہوں نے دعا کی تھی کہ یا اللہ ! میرے اہل وعیال کی اچھی طرح نگہداشت کیجیویہ دعا قبول ہوئی اور ابو سلمہ کے اہل وعیال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا سرپرست عطا ہواور حضرت ام سلمہ کو ام المؤمنین کا لقب ومنصب عطاکیا گیا ۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بچوں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تعلیم وتربیت فرمائی کہ عمر بن ابو سلمہ سے سعید بن مسیب ، ابو امامہ بن سہل اور عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ حدیث کی روایت کرتے ہیں اور حضرت علی ان کو فارس اور بحرین کا حاکم مقرر کرتے ہیں۔ ابو سلمہ کی بیٹی زینب اپنے زمانہ کی سب عورتوں سے زیادہ فقیہ تھیں، یہ بچہ ہی تھیں کہ ایک دن کھیلتے کھیلتے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئیں آپ غسل فرما رہے تھے آپ نے پیارسے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ، چہرے کی تازگی بڑھاپے میں بھی جوانی جیسی قائم رہی ۔ ان کا انتقال مدینہ منورہ میں84سال کی عمر میں 60ھ میں ہوا۔ یہ حضرت زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ربیبہ تھیں، ان کے والد ابو سلمہ تھے جن کا نام عبداللہ ابن عبدالاسد مخزومی ہے اور کنیت ابو سلمہ ہے۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پھوپھی زاد بھائی تھے ۔ ان کی والدہ کا نام بوہ بنت عبدالمطلب ہے اور ابو سلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دودھ شریک بھی ہیں۔ ان کی بیوی ام سلمہ نے ان کے ساتھ حبشہ کی ہجرت کی تھی مگر مکہ واپس آگئے جب دوبارہ مدینہ منورہ کو ہجرت کی تو ان کے بچے سلمہ کو ددھیال والوں نے چھین لیا اور حضرت ام سلمہ کو ان کے میکے والوں نے جبراً روک لیا ۔ ابوسلمہ دل مسوس کر بیوی اوربچوں کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مدینہ چلے گئے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک سال تک برابر روتی رہی اورروزانہ اس جگہ آکر بیٹھ جاتی جہاں شوہر سے الگ کی گئی تھیں ، ان کی اس بے قراری اورگریہ وزاری نے سنگ دل عزیزوں کو بھی رحم پرمجبور کردیا اورانہوں نے ان کوان کے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی ۔ یہ اکیلی مدینہ منورہ کو چل کھڑی ہوئیں، جنگ احد میں ابو سلمہ سخت زخمی ہوگئے اور جمادی الآخر3ھ میں ان زخموں کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت انہوں نے دعا کی تھی کہ یا اللہ ! میرے اہل وعیال کی اچھی طرح نگہداشت کیجیویہ دعا قبول ہوئی اور ابو سلمہ کے اہل وعیال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا سرپرست عطا ہواور حضرت ام سلمہ کو ام المؤمنین کا لقب ومنصب عطاکیا گیا ۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بچوں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تعلیم وتربیت فرمائی کہ عمر بن ابو سلمہ سے سعید بن مسیب ، ابو امامہ بن سہل اور عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ حدیث کی روایت کرتے ہیں اور حضرت علی ان کو فارس اور بحرین کا حاکم مقرر کرتے ہیں۔ ابو سلمہ کی بیٹی زینب اپنے زمانہ کی سب عورتوں سے زیادہ فقیہ تھیں، یہ بچہ ہی تھیں کہ ایک دن کھیلتے کھیلتے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئیں آپ غسل فرما رہے تھے آپ نے پیارسے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ، چہرے کی تازگی بڑھاپے میں بھی جوانی جیسی قائم رہی ۔ ان کا انتقال مدینہ منورہ میں84سال کی عمر میں 60ھ میں ہوا۔