كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ مَنْ لَمْ يُوَاجِهِ النَّاسَ بِالعِتَابِ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ: قَالَتْ عَائِشَةُ: صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَرَخَّصَ فِيهِ، فَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ، وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً»
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: غصہ میں جن پر عتاب ہے ان کو مخاطب نہ کرنا
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ہم سے مسلم نے بیان کیا ، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام کیا اور لوگوں کو بھی اس کی اجازت دے دی لیکن کچھ لوگوں نے اس کا نہ کرنا اچھا جانا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی توآپ نے خطبہ دیا اور اللہ کی حمد کے بعد فرمایا ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو اس کا م سے پرہیز کرتے ہیں ، جو میں کرتا ہوں ، اللہ کی قسم میں اللہ کو ان سب سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔
تشریح :
ترجمہ باب اس جگہ سے نکلا کہ آپ نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے نہیں فرمایا بلکہ بہ صیغہ غائب ارشاد دہوا کہ بعض لوگوں کا یہ حال ہے، اس حدیث سے یہ نکلا کہ اتباع سنت نبوی یہی تقویٰ اور یہی خدا ترسی ہے اور جو شخص یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل یا کوئی قول خلاف تقویٰ تھا یا اس کے خلاف کوئی فعل یا قول افضل ہے وہ عظیم غلطی پر ہے ۔ اس حدیث میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کوان سے زیادہ پہنچانتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات الٰہی بیان کی ہیں مثلاً اترنا چڑھنا ہنسنا تعجب کرنا آنا جانا آواز سے بات کرنا یہ سب صفات برحق ہیںاور تاویل کرنے والے غلطی پر ہیں کیونکہ ان کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے مقابلہ پر صفر کے قریب ہے اور ارشاد نبوی برحق ہے۔
ترجمہ باب اس جگہ سے نکلا کہ آپ نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے نہیں فرمایا بلکہ بہ صیغہ غائب ارشاد دہوا کہ بعض لوگوں کا یہ حال ہے، اس حدیث سے یہ نکلا کہ اتباع سنت نبوی یہی تقویٰ اور یہی خدا ترسی ہے اور جو شخص یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل یا کوئی قول خلاف تقویٰ تھا یا اس کے خلاف کوئی فعل یا قول افضل ہے وہ عظیم غلطی پر ہے ۔ اس حدیث میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کوان سے زیادہ پہنچانتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات الٰہی بیان کی ہیں مثلاً اترنا چڑھنا ہنسنا تعجب کرنا آنا جانا آواز سے بات کرنا یہ سب صفات برحق ہیںاور تاویل کرنے والے غلطی پر ہیں کیونکہ ان کا علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے مقابلہ پر صفر کے قریب ہے اور ارشاد نبوی برحق ہے۔