‌صحيح البخاري - حدیث 6100

كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الأَذَى صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقًا، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً كَبَعْضِ مَا كَانَ يَقْسِمُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: وَاللَّهِ إِنَّهَا لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ [ص:26] بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قُلْتُ: أَمَّا أَنَا لَأَقُولَنَّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي أَصْحَابِهِ فَسَارَرْتُهُ، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ وَغَضِبَ، حَتَّى وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَخْبَرْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: «قَدْ أُوذِيَ مُوسَى بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَصَبَرَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6100

کتاب: اخلاق کے بیان میں باب: تکلیف پر صبر کرنے کا بیان ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ان سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جنگ حنین ) میں کچھ مال تقسیم کیا جیسا کہ آپ ہمیشہ تقسیم کیا کرتے تھے ۔ اس قبیلہ انصار کے ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی حاصل کرنا مقصود نہیں تھا ۔ میں نے کہا کہ یہ بات میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہوں گا ۔ چنانچہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے ، میں نے چپکے سے یہ بات آپ سے کہی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی یہ بات بڑی ناگوار گزری اور آپ کے چہرہ کا رنگ بدل گیا اور آپ غصہ ہو گئے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر نہ دی ہوتی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاموسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی تھی لیکن انہوں نے صبر کیا ۔
تشریح : پس میں بھی صبر کروں گا۔ اعتراض کرنے والا معتب بن قشیر نامی منافق تھا یہ نہایت ہی خراب بات اسی نے کہی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا اوراس کی بات کاکوئی نوٹس نہیں لیا، اسی سے بات کا مطلب ثابت ہو تا ہے۔ پس میں بھی صبر کروں گا۔ اعتراض کرنے والا معتب بن قشیر نامی منافق تھا یہ نہایت ہی خراب بات اسی نے کہی تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کیا اوراس کی بات کاکوئی نوٹس نہیں لیا، اسی سے بات کا مطلب ثابت ہو تا ہے۔