كِتَابُ الأَذَانِ بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالنِّدَاءِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الأَنْصَارِيِّ ثُمَّ المَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، قَالَ لَهُ: إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ، أَوْ بَادِيَتِكَ، فَأَذَّنْتَ بِالصَّلاَةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ: «لاَ يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ المُؤَذِّنِ، جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ، إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ القِيَامَةِ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
باب: اذان بلند آواز سے ہونی چاہیے
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ انصاری سے خبر دی، پھر عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انھیں خبر دی کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
تشریح :
حضرت خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے۔ اس مؤذن نے تال اور سرکے ساتھ گانے کی طرح اذان دی تھی، جس پر اس کویہ سرزنش کی گئی۔ پس اذان میں ایسی بلندآواز اچھی نہیں جس میں تال اورسرپیدا ہو۔ بلکہ سادی طرح بلندآواز سے مستحب ہے۔ حدیث سے جنگلوں، بیابانوں میں اذان کی آواز بلند کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی تو وہ گڈریے اورمسلمان چرواہے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس پر عمل کریں سچ ہے
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
حضرت خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے۔ اس مؤذن نے تال اور سرکے ساتھ گانے کی طرح اذان دی تھی، جس پر اس کویہ سرزنش کی گئی۔ پس اذان میں ایسی بلندآواز اچھی نہیں جس میں تال اورسرپیدا ہو۔ بلکہ سادی طرح بلندآواز سے مستحب ہے۔ حدیث سے جنگلوں، بیابانوں میں اذان کی آواز بلند کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی تو وہ گڈریے اورمسلمان چرواہے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس پر عمل کریں سچ ہے
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں