‌صحيح البخاري - حدیث 6070

كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ سَتْرِ المُؤْمِنِ عَلَى نَفْسِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ: كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ: عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ: عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَرِّرُهُ، ثُمَّ يَقُولُ: إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ اليَوْمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 6070

کتاب: اخلاق کے بیان میں باب: مومن کے کسی عیب کو چھپانا ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے ، انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے صفوان بن محرز سے ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کانا پھوسی کے باب میں کیا سناہے ؟ ( یعنی سرگوشی کے باب میں ) انہوں نے کہا آنحضرت فرماتے تھے ( قیامت کے دن تم مسلمانوں ) میں سے ایک شخص ( جو گنہگار ہوگا ) اپنے پروردگار سے نزدیک ہو جائے گا ۔ پروردگار اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور فرمائے گا تونے ( فلاں دن دنیا میں ) یہ یہ برے کام کئے تھے ، وہ عرض کرے گا ۔ بے شک ( پروردگار مجھ سے خطائیں ہوئی ہیں پر تو غفور رحیم ہے ) غرض ( سارے گناہوں کا ) اس سے ( پہلے ) اقرار کرالے گا پھر فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپائے رکھے تو آج میں ان گناہوںکو بخش دیتا ہوں ۔
تشریح : اللہ کا ایک نام ستیر بھی ہے، یعنی گناہوں کا چھپا لینے والا ، دنیا اور آخرت میں وہ بہت سے بندوں کے گناہوں کو چھپا لیتا ہے۔ بعون اللہ منہم ۔ آمین۔ مثل مشہور ہے کہ ایک تو چوری کرے اوپر سے سینہ زوری کرے۔ اگر آدمی سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اسے چھپا کر رکھے، شرمندہ ہو۔ اللہ سے توبہ کرے، نہ یہ کہ ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے، یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے۔ یہ حدیث بھی ان احادیث صفات میں سے ہے ، اس میں اللہ کے لئے کتف بازوثابت کیا گیا ہے ، جیسے سمع اور بصر اور ید اور عین اور وجہ وغیرہ ۔ اہل حدیث اس کی تاویل نہیں کرتے اور یہی مسلک حق ہے، تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ کتف سے حجاب رحمت مراد ہے یعنی اللہ اسے اپنے سایہ عاطفت میں چھپا لے گا مگر یہ تاویل کرنا ٹھیک نہیں ہے ، کتف کے معنی بازو کے ہیں۔ اللہ کا ایک نام ستیر بھی ہے، یعنی گناہوں کا چھپا لینے والا ، دنیا اور آخرت میں وہ بہت سے بندوں کے گناہوں کو چھپا لیتا ہے۔ بعون اللہ منہم ۔ آمین۔ مثل مشہور ہے کہ ایک تو چوری کرے اوپر سے سینہ زوری کرے۔ اگر آدمی سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اسے چھپا کر رکھے، شرمندہ ہو۔ اللہ سے توبہ کرے، نہ یہ کہ ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے، یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے۔ یہ حدیث بھی ان احادیث صفات میں سے ہے ، اس میں اللہ کے لئے کتف بازوثابت کیا گیا ہے ، جیسے سمع اور بصر اور ید اور عین اور وجہ وغیرہ ۔ اہل حدیث اس کی تاویل نہیں کرتے اور یہی مسلک حق ہے، تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ کتف سے حجاب رحمت مراد ہے یعنی اللہ اسے اپنے سایہ عاطفت میں چھپا لے گا مگر یہ تاویل کرنا ٹھیک نہیں ہے ، کتف کے معنی بازو کے ہیں۔