كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإِحْسَانِ۔ ۔ ۔ صحيح حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا، يُخَيَّلُ [ص:19] إِلَيْهِ أَنَّهُ يَأْتِي أَهْلَهُ وَلاَ يَأْتِي، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ لِي ذَاتَ يَوْمٍ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِي أَمْرٍ اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ: أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رِجْلَيَّ وَالآخَرُ عِنْدَ رَأْسِي، فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي: مَا بَالُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، يَعْنِي مَسْحُورًا، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ، قَالَ: وَفِيمَ؟ قَالَ: فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ، تَحْتَ رَعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَذِهِ البِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا، كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ، وَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ» فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْرِجَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَهَلَّا، تَعْنِي تَنَشَّرْتَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ شَفَانِي، وَأَمَّا أَنَا فَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا» قَالَتْ: وَلَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، حَلِيفٌ لِيَهُودَ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ نحل میں فرمان
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے اتنے دنوں تک اس حال میں رہے کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ جیسے آپ اپنی بیوی کے پاس جارہے ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک دن فرمایا ، عائشہ ! میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک معاملہ میں سوال کیا تھا اوراس نے وہ بات مجھے بتلادی ، دو فرشتے میرے پاس آئے ، ایک میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا سرکے پاس بیٹھ گیا ۔ اس نے اس سے کہا کہ جو میرے سر کے پاس تھا ان صاحب ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ ) دوسرے نے جواب دیا کہ ان پر جادو کردیا گیا ہے ۔ پوچھا ، کس نے ان پر جادو کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے ، پوچھا ، کس چیز میں کیا ہے ، جواب دیا کہ نر کھجور کے خوشہ کے غلاف میں ، اس کے اندر کنگھی ہے اور کتان کے تار ہیں ۔ اور یہ ذروان کے کنویں میں ایک چٹان کے نیچے دبا دیا ہے ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا تھا ، اس کے باغ کے درختوں کے پتے سانپوںکے پھن جیسے ڈراؤ نے معلوم ہوتے ہیں اور اس کا پانی مہندی کے نچوڑ ے ہوئے پانی کی طرح سرخ تھا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ جادو نکالا گیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر کیوں نہیں ، ان کی مراد یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو شہرت کیوں نہ دی ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی ہے اورمیں ان لوگوں میں خواہ مخواہ برائی کے پھیلانے کو پسند نہیں کرتا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ لبید بن اعصم یہود کے حلیف بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا ۔
تشریح :
(اصل میں کتان السی کو کہتے ہیں اس کے درخت کا پوست لے کر اس میں ریشم کی طرح کا تار نکالتے ہیں یہاں وہی تار مراد ہیں)
باب کے آخری جملہ کا مقصد اسی سے نکلتا ہے کہ آپ نے ایک کافر کے اوپر حقیقت کے باوجود برائی کو نہیں لادا بلکہ صبر وشکر سے کام لیا اور اس برائی کو دبا دیا۔ شورش کو بند کردیا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )
(اصل میں کتان السی کو کہتے ہیں اس کے درخت کا پوست لے کر اس میں ریشم کی طرح کا تار نکالتے ہیں یہاں وہی تار مراد ہیں)
باب کے آخری جملہ کا مقصد اسی سے نکلتا ہے کہ آپ نے ایک کافر کے اوپر حقیقت کے باوجود برائی کو نہیں لادا بلکہ صبر وشکر سے کام لیا اور اس برائی کو دبا دیا۔ شورش کو بند کردیا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )