كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ السَّمَرِ فِي الفِقْهِ وَالخَيْرِ بَعْدَ العِشَاءِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: انْتَظَرْنَا الحَسَنَ وَرَاثَ عَلَيْنَا حَتَّى قَرُبْنَا مِنْ وَقْتِ قِيَامِهِ، فَجَاءَ فَقَالَ: دَعَانَا جِيرَانُنَا هَؤُلاَءِ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: انْتَظَرْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، حَتَّى كَانَ شَطْرُ اللَّيْلِ يَبْلُغُهُ، فَجَاءَ فَصَلَّى لَنَا، ثُمَّ خَطَبَنَا، فَقَالَ: «أَلاَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا ثُمَّ رَقَدُوا، وَإِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَةَ - قَالَ الحَسَنُ - وَإِنَّ القَوْمَ لاَ يَزَالُونَ بِخَيْرٍ مَا انْتَظَرُوا الخَيْرَ» قَالَ قُرَّةُ: هُوَ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
باب: عشاء کے بعد مسائل کی باتیں کرنا
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے، انھوں نے کہا کہ ایک دن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے بڑی دیر کی۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور ( بطور معذرت ) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا ( اس لیے دیر ہو گئی ) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
تشریح :
ترمذی نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی ایک حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ رات میں مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اورمیں بھی اس میں شریک رہتا تھا۔ یعنی اگرچہ عام حالات میں عشاءکے بعد سوجاناچاہئیے۔ لیکن اگر کوئی کار خیر پیش آجائے یاعلمی ودینی کوئی کام کرنا ہو تو عشاءکے بعد جاگنے میں بشرطیکہ صبح کی نماز چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو کوئی مضائقہ نہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ روزانہ رات میں تعلیم کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے لیکن آج آنے میں دیر کی اوراس وقت آئے جب یہ تعلیمی مجلس حسب معمول ختم ہوجانی چاہئیے تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد لوگوں کو نصیحت کی اور فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیرمیں نمازپڑھائی اور یہ فرمایا۔ یہ حدیث دوسری سندوں کے ساتھ پہلے بھی گزر چکی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشاء بعد دین اور بھلائی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں ہے۔
ترمذی نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی ایک حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ رات میں مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اورمیں بھی اس میں شریک رہتا تھا۔ یعنی اگرچہ عام حالات میں عشاءکے بعد سوجاناچاہئیے۔ لیکن اگر کوئی کار خیر پیش آجائے یاعلمی ودینی کوئی کام کرنا ہو تو عشاءکے بعد جاگنے میں بشرطیکہ صبح کی نماز چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو کوئی مضائقہ نہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ روزانہ رات میں تعلیم کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے لیکن آج آنے میں دیر کی اوراس وقت آئے جب یہ تعلیمی مجلس حسب معمول ختم ہوجانی چاہئیے تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد لوگوں کو نصیحت کی اور فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیرمیں نمازپڑھائی اور یہ فرمایا۔ یہ حدیث دوسری سندوں کے ساتھ پہلے بھی گزر چکی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشاء بعد دین اور بھلائی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں ہے۔