كِتَابُ العِلْمِ بَابُ مَنْ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالعِلْمِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ عَارِمُ بْنُ الفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: تَخَلَّفَ عَنَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا فَأَدْرَكَنَا - وَقَدْ أَرْهَقَتْنَا الصَّلاَةُ - وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ» مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا
کتاب: علم کے بیان میں
باب:علمی مسائل کے لیے آواز بلند کرنا
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انھوں نے یوسف بن ماہک سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انھوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس وقت ملے جب ( عصر کی ) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم ( جلدی جلدی ) وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ ( یہ حال دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یوں ہی بلند آواز سے ) فرمایا۔
تشریح :
بلندآوازسے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں لیس بصخاب آیا ہے کہ آپ شور وغل کرنے والے نہ تھے مگریہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کرکے بتلادیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرمادیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہوجایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔
بلندآوازسے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں لیس بصخاب آیا ہے کہ آپ شور وغل کرنے والے نہ تھے مگریہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کرکے بتلادیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرمادیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہوجایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔