كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ح وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، نَحْوَهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ»
کتاب: وحی کے بیان میں
باب: (ابوسفیان اور ہرقل کا مکالمہ)
ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انھیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انھوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ ( دوسری سند یہ ہے کہ ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے اور رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔
تشریح :
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن ( البقرۃ: 185 ) میں مذکور ہے۔یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماءدنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل ں قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ساتھ ہی آپ کے “ جود ” کا ذکر خیر بھی کیاگیا۔ سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور جود کے معنی “ اعطاءما ینبغی لمن ینبغی ” کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔پس جود مال ہی پر موقوف نہیں۔بلکہ جوشے بھی جس کے لئے مناسب ہودے دی جائے،اس لئے آپ اجودالناس تھے۔حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت،تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت،گم راہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت،الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث وسیرمیں منقول ہیں۔آپ کی جودوسخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤںسے دی گئی جوبہت ہی مناسب ہے۔باران رحمت سے زمین سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔آپ کی جودوسخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔خداشناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندرموجیں مارنے لگے۔آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلوتاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین ومتعلمین کوبہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی،جوادووسےع القلب ہونا چاہئیے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جودوسخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کاثواب کتنے ہی درجات حاصل کرلیتا ہے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری وباطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔
سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ےعنی امام زہری تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سندکی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استادکے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کونقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کردیا۔محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح سے یہی تحویل مرادہوتی ہے۔اس سے تحویل سند اور سند میں اختصارمقصود ہوتا ہے۔آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث،اخبار،عنعنہ،تحویل سب جمع ہوگئی ہیں۔جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ شہررمضان الذی انزل فیہ القرآن ( البقرۃ: 185 ) میں مذکور ہے۔یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماءدنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل ں قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ساتھ ہی آپ کے “ جود ” کا ذکر خیر بھی کیاگیا۔ سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور جود کے معنی “ اعطاءما ینبغی لمن ینبغی ” کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔پس جود مال ہی پر موقوف نہیں۔بلکہ جوشے بھی جس کے لئے مناسب ہودے دی جائے،اس لئے آپ اجودالناس تھے۔حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت،تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت،گم راہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت،الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث وسیرمیں منقول ہیں۔آپ کی جودوسخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤںسے دی گئی جوبہت ہی مناسب ہے۔باران رحمت سے زمین سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔آپ کی جودوسخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔خداشناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندرموجیں مارنے لگے۔آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلوتاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین ومتعلمین کوبہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی،جوادووسےع القلب ہونا چاہئیے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جودوسخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کاثواب کتنے ہی درجات حاصل کرلیتا ہے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری وباطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔
سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ےعنی امام زہری تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سندکی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استادکے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کونقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کردیا۔محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح سے یہی تحویل مرادہوتی ہے۔اس سے تحویل سند اور سند میں اختصارمقصود ہوتا ہے۔آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث،اخبار،عنعنہ،تحویل سب جمع ہوگئی ہیں۔جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔