‌صحيح البخاري - حدیث 5974

كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَيْنَمَا ثَلاَثَةُ نَفَرٍ يَتَمَاشَوْنَ أَخَذَهُمُ المَطَرُ، فَمَالُوا إِلَى غَارٍ فِي الجَبَلِ، فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الجَبَلِ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا لِلَّهِ صَالِحَةً، فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يَفْرُجُهَا. فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ، وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ، كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِيهِمَا قَبْلَ وَلَدِي، وَإِنَّهُ نَاءَ بِيَ الشَّجَرُ، فَمَا أَتَيْتُ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ، فَجِئْتُ بِالحِلاَبِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا، أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَبْدَأَ بِالصِّبْيَةِ قَبْلَهُمَا، وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ. فَفَرَجَ اللَّهُ لَهُمْ فُرْجَةً حَتَّى يَرَوْنَ مِنْهَا السَّمَاءَ. وَقَالَ الثَّانِي: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَتْ لِي ابْنَةُ عَمٍّ أُحِبُّهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ، فَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا، فَأَبَتْ حَتَّى آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ، فَسَعَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ فَلَقِيتُهَا بِهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، وَلاَ تَفْتَحِ الخَاتَمَ، فَقُمْتُ عَنْهَا، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي قَدْ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا. فَفَرَجَ لَهُمْ فُرْجَةً. وَقَالَ الآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنِّي كُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَقَّهُ فَتَرَكَهُ وَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا، فَجَاءَنِي فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلاَ تَظْلِمْنِي وَأَعْطِنِي حَقِّي، فَقُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ البَقَرِ وَرَاعِيهَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ [ص:4] وَلاَ تَهْزَأْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لاَ أَهْزَأُ بِكَ، فَخُذْ ذَلِكَ البَقَرَ وَرَاعِيَهَا، فَأَخَذَهُ فَانْطَلَقَ بِهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ مَا بَقِيَ. فَفَرَجَ اللَّهُ عَنْهُمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5974

کتاب: اخلاق کے بیان میں باب: جس شخص نے اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا اس کی دعا قبول ہوتی ہے ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی ، انہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آلیا اور انہوںنے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی ۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہو گیا ۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہوتا کہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو ممکن ہے وہ غار کو کھول دے ۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا اے اللہ ! میرے والدین تھے ان کے لیے بکریاں چراتا تھا اور واپس آکر دودھ نکالتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو پلاتا تھا اپنے بچوں سے بھی پہلے ۔ ایک دن چار ے کے تلاش نے مجھے بہت دور لے جا ڈالا چنانچہ میں رات گئے واپس آیا ۔ میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں ۔ میںنے معمول کے مطابق دودھ نکالا پھر میں دوھا ہوا دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا میں گوارا نہیں کرسکتا تھا کہ انہیں سونے میں جگاؤں اور یہ بھی مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا کہ والدین سے پہلے بچوں کو پلاؤں ۔ بچے بھوک سے میرے قدموں پر لوٹ رہے تھے اور اسی کشمکش میں صبح ہو گئی ۔ پس اے اللہ ! اگر تیرے علم میں بھی یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ( دعا قبول کی اور ) ان کے لیے اتنی کشادگی پیدا کردی کہ وہ آسمان دیکھ سکتے تھے ۔ دوسرے شخص نے کہا اے اللہ ! میری ایک چچا زاد بہن تھی اور میں اس سے محبت کرتاتھا ، وہ انتہائی محبت جو ایک مرد ایک عورت سے کر سکتا ہے ۔ میں نے اس سے اسے مانگا تو اس نے انکار کیا اور صرف اس شرط پر راضی ہوئی کہ میں اسے سودینار دوں ۔ میں نے دوڑ دھوپ کی اور سو دینار جمع کر لایا پھر اس کے پاس انہیں لے کر گیا پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور مہر کو مت توڑ ۔ میں یہ سن کر کھڑا ہوگیا ( اور زنا سے باز رہا ) پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا وخوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کچھ اور کشادگی ( چٹان کو ہٹا کر ) پےدا کردے ۔ چنانچہ ان کے لیےتھوڑی اور کشادگی ہو گئی ۔ تیسرے شخص نے کہا اے اللہ ! میں نے ایک مزدور ایک فرق چاول کی مزدوری پر رکھا تھا اس نے اپنا کام پورا کرکے کہا کہ میری مزدوری دو ۔ میں نے اس کی مزدوری دے دی لیکن وہ چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے ساتھ بے تو جہی کی ۔ میں اس کے اس بچے ہوئے دھان کو بوتا رہا اور اس طرح میںنے اس سے ایک گائے اور اس کاچرواہا کر لیا ( پھر جب وہ آیا تو ) میںنے اس سے کہا کہ یہ گائے اور چرواہا لے جاؤ ۔ اس نے کہا اللہ سے ڈرو اورمیرے ساتھ مذاق نہ کرو ۔ میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کرتا ۔ اس گائے اورچرواہے کو لے جاؤ ۔ چنانچہ وہ انہیں لے کر چلا گیا ۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا وخوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ( چٹان کی وجہ سے غارسے نکلنے میں جو رکاوٹ باقی رہ گئی ہے اسے بھی کھول دے ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ان کے لیےپوری طرح کشادگی کردی جس سے وہ باہر آگئے ۔
تشریح : اس حدیث سے نیک کاموں کو بوقت دعا بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ثابت ہوا ۔ آیت وابتغوآ الیہ الوسیلۃ ( المائدۃ : 35 ) کا یہی مطلب ہے ۔ نیک لوگوں کا وسیلہ یہ ہے کہ وہ زندہ ہوں تو ان سے دعا کرائی جائے ، مردوں کا وسیلہ بالکل بے ثبوت چیز ہے جس سے پرہیز کرنا فرض ہے۔ اس حدیث سے نیک کاموں کو بوقت دعا بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ثابت ہوا ۔ آیت وابتغوآ الیہ الوسیلۃ ( المائدۃ : 35 ) کا یہی مطلب ہے ۔ نیک لوگوں کا وسیلہ یہ ہے کہ وہ زندہ ہوں تو ان سے دعا کرائی جائے ، مردوں کا وسیلہ بالکل بے ثبوت چیز ہے جس سے پرہیز کرنا فرض ہے۔