‌صحيح البخاري - حدیث 596

كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ جَمَاعَةً بَعْدَ ذَهَابِ الوَقْتِ صحيح حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، جَاءَ يَوْمَ الخَنْدَقِ، بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي العَصْرَ، حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا» فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاَةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا، فَصَلَّى العَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغْرِبَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 596

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں باب: قضا نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا ہم سے معاذ بن فضالہ نے حدیث نقل کی، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک مرتبہ ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
تشریح : جنگ خندق یا جنگ احزاب 5ھ میں ہوئی۔ تفصیلی ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ اس روایت میں گویہ صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے۔ لہٰذا یہ نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ہی سے پڑھی ہوگی۔ اوراسماعیلی کی روایت میں صاف یوں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( قولہ ماکدت ) لفظہ کادمن افعال المقاربۃ فاذا قلت کادزید یقوم فہم منہ انہ قارب القیام ولم یقم کما تقرر فی النحو والحدیث یدل علی وجوب قضاءالصلوٰۃ المتروکۃ لعذر الاشتغال بالقتال وقد وقع الخلاف فی سبب ترک النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ لہذہ الصلوٰۃ فقیل ترکوہا نسیانا وقیل شغلوا فلم یتمکنوا وہو الاقرب کما قال الحافظ وفی سنن النسائی عن ابی سعید ان ذلک قبل ان ینزل اللہ فی صلوٰۃ الخوف فرجالاً اورکباناً وسیاتی الحدیث وقد استدل بہذا الحدیث علی وجوب الترتیب بین الفوائت المقضیۃ والموداۃ الخ۔ ( نیل الاوطار، ج2ص:31 ) یعنی لفظ کاد افعال مقاربہ سے ہے۔ جب تم کاد زید یقوم ( یعنی زید قریب ہوا کہ کھڑا ہو ) بولوگے تو اس سے سمجھا جائے گا کہ زید کھڑے ہونے کے قریب توہوا مگر کھڑا نہ ہوسکا جیساکہ نحو میں قاعدہ مقرر ہے۔ پس روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بیان کا مقصد یہ کہ نماز عصر کے لیے انھوں نے آخر وقت تک کوشش کی مگر وہ ادا نہ کرسکے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کے ترجمہ میں نفی کی جگہ اثبات ہے کہ آخر وقت میں انھوں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔ مگر امام شوکانی کی وضاحت اورحدیث کا سیاق وسباق بتلارہاہے کہ نفی ہی کا ترجمہ درست ہے کہ وہ نماز عصر ادا نہ کرسکے تھے۔ اسی لیے وہ خود فرمارہے ہیں کہ فتوضا للصلوٰۃ وتوضانالہا کہ آپ نے بھی وضوکیا اورہم نے بھی اس کے لیے وضو کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ جو نمازیں جنگ وجہاد کی مشغولیت یا اورکسی شرعی وجہ سے چھوٹ جائیں ان کی قضاءواجب ہے اوراس میں اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نماز کیوں ترک ہوئیں۔ بعض بھول چوک کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اوربعض کا بیان ہے کہ جنگ کی تیزی اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اوریہی درست معلوم ہوتاہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے۔ اورنسائی میں حضرت سعیدرضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ صلوٰۃ خوف کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جب کہ حکم تھا کہ حالت جنگ میں پیدل یا سوار جس طرح بھی ممکن ہو نمازادا کرلی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فوت ہونے والی نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔ جنگ خندق یا جنگ احزاب 5ھ میں ہوئی۔ تفصیلی ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ اس روایت میں گویہ صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے۔ لہٰذا یہ نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ہی سے پڑھی ہوگی۔ اوراسماعیلی کی روایت میں صاف یوں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( قولہ ماکدت ) لفظہ کادمن افعال المقاربۃ فاذا قلت کادزید یقوم فہم منہ انہ قارب القیام ولم یقم کما تقرر فی النحو والحدیث یدل علی وجوب قضاءالصلوٰۃ المتروکۃ لعذر الاشتغال بالقتال وقد وقع الخلاف فی سبب ترک النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ لہذہ الصلوٰۃ فقیل ترکوہا نسیانا وقیل شغلوا فلم یتمکنوا وہو الاقرب کما قال الحافظ وفی سنن النسائی عن ابی سعید ان ذلک قبل ان ینزل اللہ فی صلوٰۃ الخوف فرجالاً اورکباناً وسیاتی الحدیث وقد استدل بہذا الحدیث علی وجوب الترتیب بین الفوائت المقضیۃ والموداۃ الخ۔ ( نیل الاوطار، ج2ص:31 ) یعنی لفظ کاد افعال مقاربہ سے ہے۔ جب تم کاد زید یقوم ( یعنی زید قریب ہوا کہ کھڑا ہو ) بولوگے تو اس سے سمجھا جائے گا کہ زید کھڑے ہونے کے قریب توہوا مگر کھڑا نہ ہوسکا جیساکہ نحو میں قاعدہ مقرر ہے۔ پس روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بیان کا مقصد یہ کہ نماز عصر کے لیے انھوں نے آخر وقت تک کوشش کی مگر وہ ادا نہ کرسکے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کے ترجمہ میں نفی کی جگہ اثبات ہے کہ آخر وقت میں انھوں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔ مگر امام شوکانی کی وضاحت اورحدیث کا سیاق وسباق بتلارہاہے کہ نفی ہی کا ترجمہ درست ہے کہ وہ نماز عصر ادا نہ کرسکے تھے۔ اسی لیے وہ خود فرمارہے ہیں کہ فتوضا للصلوٰۃ وتوضانالہا کہ آپ نے بھی وضوکیا اورہم نے بھی اس کے لیے وضو کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ جو نمازیں جنگ وجہاد کی مشغولیت یا اورکسی شرعی وجہ سے چھوٹ جائیں ان کی قضاءواجب ہے اوراس میں اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نماز کیوں ترک ہوئیں۔ بعض بھول چوک کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اوربعض کا بیان ہے کہ جنگ کی تیزی اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اوریہی درست معلوم ہوتاہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے۔ اورنسائی میں حضرت سعیدرضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ صلوٰۃ خوف کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جب کہ حکم تھا کہ حالت جنگ میں پیدل یا سوار جس طرح بھی ممکن ہو نمازادا کرلی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فوت ہونے والی نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔