كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ الذَّوَائِبِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ عَنْبَسَةَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ بِنْتِ الحَارِثِ خَالَتِي، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، قَالَ: «فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ» قَالَ: «فَأَخَذَ بِذُؤَابَتِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ» حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ: بِهَذَا، وَقَالَ: بِذُؤَابَتِي، أَوْ بِرَأْسِي
کتاب: لباس کے بیان میں
باب: گیسوؤں کے بیان میں
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے فضل بن عنبسہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشیم بن بشیر نے خبر دی ، کہا ہم کو ابو البشر جعفر نے خبر دی ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے قریبہ بن سعید نے کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا ، ان سے ابو بشر نے ، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر گزاری ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس رات انہیں کے ہاں باری تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے بائیں کھڑا ہو گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سرکے بالوں کی ایک لٹ پکڑی اور مجھے اپنی داہنی طرف کردیا ۔
تشریح :
حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا هشيم، أخبرنا أبو بشر، بهذا، وقال بذؤابتي أو برأسي.
ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی ، پھر یہی حدیث نقل کی اس میں یوں ہے کہ میری چوٹی پکڑ کریا میرا سر پکڑ کر آپ نے مجھے اپنے داہنے جانب کردیا ۔
تشریح : معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما گیسووالے تھے۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بال پکڑ کر دائیں طرف کھڑا کردیا۔ اس لیے کہ ان کا بائیں طرف کھڑا ہونا غلط تھا ۔ ایسی حالت میں مقتدی کو امام کے دائیں کھڑا ہونا چاہیئے ۔ بدعتی قبر پرست پیر زادوں کا سجادہ نشینوں کی طرح گیسورکھ کر ان کو کاندھوں سے بھی نیچے تک لٹکانا اور ریاکاری کے لیے اپنے کو پیر درویش ظاہر کرنا یہ وہ بد ترین حرکت ہے جس سے اہل اسلام کو سخت پر ہیز کی ضرورت ہے۔ بلکہ ایسے پیروں اور فقیروں اورمکاروں کے جال میں ہر گز نہ آنا چاہیئے ۔
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نہ باید داد دست
حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا هشيم، أخبرنا أبو بشر، بهذا، وقال بذؤابتي أو برأسي.
ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی ، پھر یہی حدیث نقل کی اس میں یوں ہے کہ میری چوٹی پکڑ کریا میرا سر پکڑ کر آپ نے مجھے اپنے داہنے جانب کردیا ۔
تشریح : معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما گیسووالے تھے۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بال پکڑ کر دائیں طرف کھڑا کردیا۔ اس لیے کہ ان کا بائیں طرف کھڑا ہونا غلط تھا ۔ ایسی حالت میں مقتدی کو امام کے دائیں کھڑا ہونا چاہیئے ۔ بدعتی قبر پرست پیر زادوں کا سجادہ نشینوں کی طرح گیسورکھ کر ان کو کاندھوں سے بھی نیچے تک لٹکانا اور ریاکاری کے لیے اپنے کو پیر درویش ظاہر کرنا یہ وہ بد ترین حرکت ہے جس سے اہل اسلام کو سخت پر ہیز کی ضرورت ہے۔ بلکہ ایسے پیروں اور فقیروں اورمکاروں کے جال میں ہر گز نہ آنا چاہیئے ۔
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نہ باید داد دست