كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ تَقْلِيمِ الأَظْفَارِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ: «إِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ»
کتاب: لباس کے بیان میں
باب: ناخن ترشوانے کا بیان
ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے ، انہوں نے کہا ہم سے عمر بن محمد بن زید نے بیان کیا ، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم مشرکین کے خلاف کرو ، داڑھی چھوڑدو اور مونچھیں کترواؤ ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی ( ہاتھ سے ) پکڑ لیتے اور ( مٹھی ) سے جو بال زیادہ ہوتے انہیں کتروا دیتے ۔
تشریح :
بعض لوگوں نے اس سے داڑھی کٹوانے کی دلیل لی ہے جو صحیح نہیں ہے ۔ اول تو یہ خاص حج سے متعلق ہے۔ دوسرے ایک صحابی کا فعل ہے وہ صحیح حدیث کے مقابلہ پر حجت نہیں ہے لہٰذا صحیح یہی ہو اکہ داڑھی کے بال نہ کٹوائے جائیں ، واللہ اعلم بالصواب ۔
بعض لوگوں نے اس سے داڑھی کٹوانے کی دلیل لی ہے جو صحیح نہیں ہے ۔ اول تو یہ خاص حج سے متعلق ہے۔ دوسرے ایک صحابی کا فعل ہے وہ صحیح حدیث کے مقابلہ پر حجت نہیں ہے لہٰذا صحیح یہی ہو اکہ داڑھی کے بال نہ کٹوائے جائیں ، واللہ اعلم بالصواب ۔