‌صحيح البخاري - حدیث 5807

كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ التَّقَنُّعِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: هَاجَرَ نَاسٌ إِلَى الحَبَشَةِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى رِسْلِكَ، فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَوَتَرْجُوهُ بِأَبِي أَنْتَ؟ قَالَ: «نَعَمْ» فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصُحْبَتِهِ، وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ. قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَيْنَا نَحْنُ يَوْمًا جُلُوسٌ فِي بَيْتِنَا فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَقَالَ قَائِلٌ لِأَبِي بَكْرٍ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا مُتَقَنِّعًا، فِي سَاعَةٍ لَمْ يَكُنْ يَأْتِينَا فِيهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِدًا لَكَ أَبِي وَأُمِّي، وَاللَّهِ إِنْ جَاءَ بِهِ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا لِأَمْرٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَ فَأَذِنَ لَهُ فَدَخَلَ، فَقَالَ حِينَ دَخَلَ لِأَبِي بَكْرٍ: «أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ» قَالَ: إِنَّمَا هُمْ أَهْلُكَ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: «فَإِنِّي قَدْ أُذِنَ لِي فِي الخُرُوجِ» قَالَ: فَالصُّحْبَةُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: فَخُذْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَى رَاحِلَتَيَّ هَاتَيْنِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِالثَّمَنِ» قَالَتْ: فَجَهَّزْنَاهُمَا أَحَثَّ الجِهَازِ، وَضَعْنَا لَهُمَا سُفْرَةً فِي جِرَابٍ، فَقَطَعَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قِطْعَةً مِنْ نِطَاقِهَا، فَأَوْكَأَتْ بِهِ الجِرَابَ، وَلِذَلِكَ كَانَتْ تُسَمَّى ذَاتَ النِّطَاقِ. ثُمَّ لَحِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ بِغَارٍ فِي جَبَلٍ يُقَالُ لَهُ ثَوْرٌ، فَمَكُثَ فِيهِ ثَلاَثَ لَيَالٍ، يَبِيتُ عِنْدَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَهُوَ غُلاَمٌ شَابٌّ لَقِنٌ ثَقِفٌ، فَيَرْحَلُ مِنْ عِنْدِهِمَا سَحَرًا، فَيُصْبِحُ مَعَ قُرَيْشٍ بِمَكَّةَ كَبَائِتٍ، فَلاَ يَسْمَعُ أَمْرًا يُكَادَانِ بِهِ إِلَّا وَعَاهُ، حَتَّى يَأْتِيَهُمَا بِخَبَرِ ذَلِكَ حِينَ [ص:146] يَخْتَلِطُ الظَّلاَمُ، وَيَرْعَى عَلَيْهِمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ مِنْحَةً مِنْ غَنَمٍ، فَيُرِيحُهَا عَلَيْهِمَا حِينَ تَذْهَبُ سَاعَةٌ مِنَ العِشَاءِ، فَيَبِيتَانِ فِي رِسْلِهِمَا حَتَّى يَنْعِقَ بِهَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ بِغَلَسٍ، يَفْعَلُ ذَلِكَ كُلَّ لَيْلَةٍ مِنْ تِلْكَ اللَّيَالِي الثَّلاَثِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5807

کتاب: لباس کے بیان میں باب: سر پر کپڑا ڈال کر سر چھپانا ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں زہری نے ، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ بہت سے مسلمان حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ٹھہرجاؤ کیونکہ مجھے بھی امید ہے کہ مجھے ( ہجرت کی ) اجازت دی جائے گی ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا آپ کو بھی امید ہے ؟ میرا باپ آپ پر قربان ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ۔ چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے خیال سے رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو ببول کے پتے کھلا کر چار مہینے تک انہیں خوب تیار کرتے رہے ۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم ایک دن دو پہر کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھکے ہوئے تشریف لا رہے ہیں ۔ اس وقت عموماً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف نہیں لاتے تھے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے ماں باپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت کسی وجہ ہی سے تشریف لا سکتے ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان پرپہنچ کر اجازت چاہی اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور اندر داخل ہوتے ہی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو لوگ تمہارے پاس اس وقت ہیں انہیں اٹھا دو ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرا باپ آپ پر قربان ہو یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! یہ سب آپ کے گھر ہی کے افراد ہیں ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی پھر یا رسول اللہ ! مجھے رفاقت کا شرف حاصل رہے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ۔ عرض کی یا رسول اللہ ! میرے باپ آپ پر قربان ہوں ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن قیمت سے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے بہت جلدی جلدی سامان سفر تیار کیا اور سفر کا ناشتہ ایک تھیلے میں رکھا ۔ اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے پٹکے کے ایک ٹکڑے سے تھیلہ کے منہ کو باندھا ۔ اسی وجہ سے انہیں ” ذات النطاق “ ( پٹکے والی ) کہنے لگے ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ثور نامی پہاڑ کی ایک غار میںجاکر چھپ گئے اور تین دن تک اسی میں ٹھہرے رہے ۔ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما رات آپ حضرات کے پاس ہی گزارتے تھے ۔ وہ نو جوان ذہین اور سمجھدار تھے ۔ صبح تڑ کے میں وہاں سے چل دیتے تھے اور صبح ہوتے ہوتے مکہ کے قریش میں پہنچ جاتے تھے ۔ جیسے رات میں مکہ ہی میں رہے ہوں ۔ مکہ مکرمہ مےں جو بات بھی ان حضرات کے خلاف ہوتی اسے محفوظ رکھتے اور جوں ہی رات کا اندھیرا چھا جاتا غار ثور میں ان حضرات کے پاس پہنچ کر تمام تفصیلات کی اطلاع دیتے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مولیٰ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ دودھ دینے والی بکریاں چراتے تھے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو ان بکریوں کو غار ثور کی طرف ہانک لاتے تھے ۔ آپ حضرات بکریوں کے دودھ پر رات گزارتے اور صبح کی پوپھٹتے ہی عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ وہاں سے روانہ ہوجاتے ۔ ان تین راتوں میں انہوں نے ہر رات ایسا ہی کیا ۔
تشریح : باب اور حدیث میں یہ مطابقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر سر ڈھانک کر تشریف لائے۔ رومال سے سر ڈھانکنے کا یہ رواج عربوں میں آج تک موجود ہے، وہاں کی گرم آب وہوا کے لیے یہ عمل ضروری ہے۔ اس حدیث میں ہجرت سے متعلق کئی امور بیان کئے گئے ہیں جن کی مزید تفصیلات واقعہ ہجرت میں اس حدیث کے ذیل میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ باب اور حدیث میں یہ مطابقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر سر ڈھانک کر تشریف لائے۔ رومال سے سر ڈھانکنے کا یہ رواج عربوں میں آج تک موجود ہے، وہاں کی گرم آب وہوا کے لیے یہ عمل ضروری ہے۔ اس حدیث میں ہجرت سے متعلق کئی امور بیان کئے گئے ہیں جن کی مزید تفصیلات واقعہ ہجرت میں اس حدیث کے ذیل میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔