‌صحيح البخاري - حدیث 5792

كِتَابُ اللِّبَاسِ بَابُ الإِزَارِ المُهَدَّبِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ القُرَظِيِّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جَالِسَةٌ، وَعِنْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ تَحْتَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلاَقِي، فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا مَعَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ هَذِهِ الهُدْبَةِ، وَأَخَذَتْ هُدْبَةً مِنْ جِلْبَابِهَا، فَسَمِعَ خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ قَوْلَهَا وَهُوَ بِالْبَابِ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، قَالَتْ: فَقَالَ خَالِدٌ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلاَ تَنْهَى هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَلاَ وَاللَّهِ مَا يَزِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى التَّبَسُّمِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لاَ، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ» فَصَارَ سُنَّةً بَعْدُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5792

کتاب: لباس کے بیان میں باب: حاشیہ دار تہمد پہننا ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ۔ میں بھی بیٹھی ہوئی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود تھے ۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میں رفاعہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں ۔ ( مغلظہ ) اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا اوراللہ کی قسم کہ ان کے ساتھ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! صرف اس جھالر جیسا ہے ۔ انہوں نے اپنی چادر کے جھالر کو اپنے ہاتھ میں لے کر اشارہ کیا ۔ حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ جو دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں ابھی اندر آنے کی اجازت نہیںہو ئی تھی ، اس نے بھی ان کی بات سنی ۔ بیان کیا کہ حضرت خالد رضی اللہ عنہ ( وہیں سے ) بولے ۔ ابو بکر ! آپ اس عورت کو روکتے نہیں کہ کس طرح کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھول کر بیان کرتی ہے لیکن اللہ کی قسم اس بات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبسم اور بڑھ گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ا ن سے فرمایا غالباً تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جاناچاہتی ہو ؟ لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ ( تمہارے دوسرے شوہر عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہ ) تمہارا مزا نہ چکھ لیں اور تم ان کا مزا نہ چکھ لو پھر بعد میں یہی قانون بن گیا ۔
تشریح : عورت نے اپنی جھالر دار چادر کی طرف اشارہ کیا۔ باب سے یہی جملہ مطابقت رکھتا ہے باقی دیگر مسائل جو اس حدیث سے نکلتے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔ قانون یہ بنا کہ جس عورت کو تین طلاق دے دی جائیں اس کا پہلے خاوند سے پھر نکاح نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے خاوند سے صحبت نہ کرائے پھر وہ خاوند خود اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، یہ شرعی حلالہ ہے۔ پھر خود اس مقصد کے تحت فرضی حلالہ کرانا موجب لعنت ہے اللہ ان علماءپر رحم کرے جو عورتوں کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ تین طلاق سے تین طہر کی طلاقیں مراد ہیں۔ عورت نے اپنی جھالر دار چادر کی طرف اشارہ کیا۔ باب سے یہی جملہ مطابقت رکھتا ہے باقی دیگر مسائل جو اس حدیث سے نکلتے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔ قانون یہ بنا کہ جس عورت کو تین طلاق دے دی جائیں اس کا پہلے خاوند سے پھر نکاح نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے خاوند سے صحبت نہ کرائے پھر وہ خاوند خود اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، یہ شرعی حلالہ ہے۔ پھر خود اس مقصد کے تحت فرضی حلالہ کرانا موجب لعنت ہے اللہ ان علماءپر رحم کرے جو عورتوں کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ تین طلاق سے تین طہر کی طلاقیں مراد ہیں۔